اردو زبان نہ ہوتی توقیام پاکستان بھی ممکن نہ ہوتا اس سے غیروں جیسا سلوک نہ کیا جائے،پروفیسر عنایت

ہماری نسل نے اردو کی ترویج پر توجہ نہ دی، آج کے نوجوانوں میں احساس زیاں پایا جاتا ہے،محمود شام اور دیگرکامحمد علی جناح یونیورسٹی کراچی میں ترویج و ترقی اردو گفت و ادب کانفرنس سے خطاب

جمعرات 17 مئی 2018 16:20

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 17 مئی2018ء) ممتاز عالم،ماہر تعلیم اور شاعرپروفیسر عنایت علی خان نے کہا ہے کہ گزشتہ دنوں سندھ کی ایک درسگاہ میں صرف انگریزی اور سندھی زبانوں میں تعلیم جاری رکھنے کے اعلان پر بہت دکھ ہوا کہ اردو زبان جس کی بنا پر قیام پاکستان کی تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوسکی تھی آج اس سے پاکستان میں غیروں جیسا سلوک کیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا تحریک پاکستان کے دو بنیادی پہلو تھے ایک نظریاتی اور دوسرا لسانی جس کی بنا پر ایک اسلامی ریاست کے قیام کی جدوجہد کی گئی تھی اس لئے وہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر اردو زبان نہ ہوتی تو پاکستان نہ بنتا اور اگر یہ نہ رہی تو ملک کے وجود کو بھی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اردو زبان کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ ایک خوبصورت ترین زبان ہے جو لوگوں کو ایکدوسرے سے جوڑتی ہے لیکن افسوس آج ہمارے ملک میں بچوں سے کہا جاتا ہے کہ اگر ترقی کرنی ہے تو انگلش زبان میں تعلیم حاصل کرو۔

(جاری ہے)

ان خیا لات کا اظہار انہوں نے گزشتہ شام محمد علی جناح یونیورسٹی کراچ (ماجو) میں " ترویج و ترقی اردوگفت وادب کانفرنس سے بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا،کانفرنس کی صدارت کے فرائض سئینر صحافی اور ممتاز رائیٹر محمود شام نے انجام دئیے۔جن دیگر نمایاں شخصیات نے اس کانفرنس سے خطاب کیا ان میں ممتاز اسکالر اور مینجمنٹ ٹرینر سیدّ نصرت علی،ٹیلی ویژن کی مشہور اداکارہ عذرا منصور،مشہور شاعرہ سبین سیف،اٹلانٹس پبلشرز کے سربراہ فاروق احمد اور تھیسپیان تھیٹر کے ڈائیریکٹر و اداکار فیصل قابل ذکر تھے۔

کانفرنس کا اہتمام یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسرز میڈم زرتاشہ عمران اور حسن آفتاب نے کیا تھا۔محمد علی جناح یونیورسٹی کراچی کے صدر پروفیسر ڈاکٹر زبیر شیخ، ایسو سی ایٹ ڈین ڈاکٹر شجاعت مبارک، سماجی علوم کے شعبہ کے سربراہ ڈاکٹر عزیز الرحمان سیفی،ڈائیریکٹر کیو ای سی ڈاکٹر منیر حسین کے علاوہ سینئر اساتذہ اور طلبہ کی ایک بڑی تعداد نے کانفرنس میںشرکت کی۔

ماجو میں اردو کانفرنس کے انعقاد کے موقع پر مجلس مذاکرہ کے علاوہ یونیورسٹی کے طلبہ کی جانب سے اردو کے ممتاز افسانہ نگار سعادت حسین منٹو کی شخصیت پر ایک تھیٹر بھی پیش کیا گیا جس کو حاضرین نے بے حد سراہا۔اس موقع پر یونیورسٹی کے کوریڈورز میں اردو ادب کے نامور شعراء، ادیب،نقاد،افسانہ نگار اور دانشوروں کی پچاس کے قریب پور ٹرٹ آویزاں کئے گئے تھے جن پر ان کا مختصر تعارف بھی تحریر کیا گیا تھا۔

علاوہ ازیں اردو کانفرنس کے انعقاد کے موقع پر طلبہ کی جانب سے اردو میں کی جانے والی فن خطاطی کی نمائیش کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔صدر مجلس محمود شام نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج کی نسل میں احساس زیاں پایا جاتا ہے ہے کیونکہ ہماری نسل نے اردو زبان کی ترویج پر توجہ نہیں دی ۔انہوں نے کہا کہ اب جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کا دور ہے مگر ہم نے اس بھی فائیدہ نہیں اٹھایا ہے،انگریزی لٹریچر سے تعلق رکھنے والے ممتاز شاعر کو دنیا بھر میں جس طرح متعارف کریا گیا ہے وہ ٹیکنالوجی کے استعمال کی ایک بہترین مشال ہے۔

انہوں نے کہا کہ اردو زبان کی ترویج کے لئے ویب سائٹ کی سہولت سے بھر پور استفادہ کیا جاسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اردو زبان اب پاکستان ہی کی زبان نہیں ہے اب اس کی نئی نئی بستیاں امریکہ،کنیڈا،جاپان، برطانیہ،آسٹریلیا،سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں آباد ہو گئی ہیں جہاں تواتر کے ساتھ مشاعرے، ڈرامے، افسانے پڑھنے اور دیگر ادبی پروگراموں کا انعقاد کیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بھی سرائیکی،ہندکو،پشتو،بلوچی اور کشمیری زبان بولے جانے والے علاقوں میں اردو کے ادبی پروگرام منعقد کئے جاتے ہیں۔محمود شام نے ماجو میں اردو ادب پر ہونے والی کانفرنس پر اپنی مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب یہاں بھی شعبہ اردو کا قیام عمل میں لانا چاہیے۔ممتاز پبلشر فاروق احمد نے کہا کوئی بھی ادب کتابیں پڑھنے تک محدود نہیں ہو تا ہے ،ڈرامے لکھنا اور پیش کرنے سے اردو ادب کی خدمت کی جاسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پچاس برس قبل اردو کے کسی مصنف کی کتاب دو ہزار تک کی تعداد میں شائیع ہوکر فروخت ہو جاتی تھیں لیکن اب آج کے دور میں پانچ سو کتابیں بھی بمشکل فروخت ہوتی ہیں جو ہمارا ایک قومی المیہ ہے۔انہوں نے کہ کہ آج کی یہ اردو زبان پر ہونے والی یہ کانفرنس سوچنے کی دعوت دیتی ہے کہ ہمارے لکھنے والے کہاں چلے گئے،کتابیں چھپنا کیوں کم ہو گئی ہیں،اردو ادب کا دو سو برس کا سرمایہ کہاں چلا گیا ہے اور اردو ادب کی زوال پذیری کے اسباب کیا ہیں۔مشہور اداکارہ عذرا منصور نے کہا کہ میر بچی جب ایک انگلش میڈیم اسکول کی طالبہ تھی تو اس کی اردو تحریر کی حوصلہ شکنی کی جاتی تھی مگر آج وہی بچی امریکہ اور کنیڈا میں وہاں کے لوگوں کو اردو پڑھا رہی ہے۔