فاٹا کے عوام انضمام کے حق میں ہیں تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا لیکن فیصلہ سازی کے عمل میں ان کو شامل کیا جائے اور معاملہ پر ریفرنڈم کرایا جائے ،

جب تک آئین کا آرٹیکل 247 فعال ہے پارلیمنٹ فاٹا کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی، چھ ماہ قبل جب حلقہ بندیوں کے حوالے سے ترمیم لائی گئی تھی تو اس وقت بھی واضح طور پر کہا گیا تھا کہ اس کا اطلاق فاٹا پر نہیں ہوگا جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا قومی اسمبلی میں نکتہ اعتراض پر اظہار خیال

بدھ 16 مئی 2018 15:56

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 16 مئی2018ء) جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے فاٹا انضمام کے معاملہ پر ریفرنڈم کرانے کی تجویز پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ فاٹا کے عوام انضمام کے حق میں ہیں تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا لیکن فیصلہ سازی کے عمل میں ان کو شامل کیا جائے، جب تک آئین کا آرٹیکل 247 فعال ہے پارلیمنٹ فاٹا کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی، چھ ماہ قبل جب حلقہ بندیوں کے حوالے سے ترمیم لائی گئی تھی تو اس وقت بھی واضح طور پر کہا گیا تھا کہ اس کا اطلاق فاٹا پر نہیں ہوگا۔

بدھ کو قومی اسمبلی میں نکتہ اعتراض پر مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ بجٹ میں حکومت نے ملکی معیشت کی ترجیحات کو تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے جو لائق تحسین ہے۔

(جاری ہے)

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اگر کوئی بین الاقوامی ادارہ ایسا قانون بنائے جو پاکستان کے آئین کے منافی ہو اور ہم اس کی حمایت پر مجبور ہوں تو یہ غلامی ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف گزشتہ 15 سالوں سے جنگ ہو رہی ہے، ہمیں آپریشن کے طریقہ کار پر اختلاف تھا تاہم ملک و قوم کے بہترین مفاد میں ہم نے راستہ نہیں روکا۔

انہوں نے کہا کہ فاٹا اصلاحات کے حوالے سے معاملہ سیفران کی وزارت اور سیفران کی متعلقہ کمیٹی کے سپرد کیا گیا تھا مگر جب کمیٹی میں تاخیر ہوئی تو اسے قانون و انصاف کی کمیٹی کے سپرد کیا گیا یہ پارلیمانی روایات کے منافی تھا۔ قانون و انصاف کمیٹی کو سیفران کی کمیٹی کے معاملے کو ڈیل کرنے کا حق نہیں ہے، اس پر ہم احتجاج کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس ایوان میں فاٹا کی صورتحال پر بحث ہوئی تھی‘ ہم نے اجلاسوں میں بھی شرکت کی اور یہ طے پایا کہ اعلیٰ عدلیہ کے دائرہ کار کو توسیع دینے کا بل منظور کیا جائے گا جبکہ پانچ سال تک باقی امور نہیں چھیڑے جائیں گے بدقسمتی سے اس وعدے کی تکمیل نہیں کی جارہی اور دوبارہ وہی چیزیں سامنے لائی جارہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم قوم اور قبائل کو آپس میں الجھا رہے ہیں، یہ ایسا مسئلہ ہے جو ملک کی داخلی اور خارجی صورتحال پر اثرانداز ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ مخصوص علاقے کئی ممالک میں موجود ہیں اور احسن طریقے سے چل بھی رہے ہیں، ہم نے ستر برسوں سے پاکستان کے ساتھ مدغم ریاستوں سوات‘ دیر ‘ چترال اور امب کو پاٹا کے تحت رکھا ہوا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ قبائلی عوام پر مسلط کردہ فیصلے کو قبائلی قبول کریں گے‘ اس سے مشکلات پیدا ہوں گی۔

انہوں نے کہا کہ انتخاب جیتنا اتنا اہم نہیں جتنا ملک کا تحفظ ہے، اگر قبائلی عوام کی مرضی کے خلاف فیصلہ کیا گیا تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم انضمام کے خلاف نہیں، اگر فاٹا کے عوام انضمام کے حق میں ہیں تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا لیکن فیصلہ سازی کے عمل میں ان کو شامل کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک آئین کا آرٹیکل 247 فعال ہے پارلیمنٹ فاٹا کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی، چھ ماہ قبل جب حلقہ بندیوں کے حوالے سے ترمیم لائی گئی تھی تو اس وقت بھی واضح طور پر کہا گیا تھا کہ اس کا اطلاق فاٹا پر نہیں ہوگا۔