سپریم کورٹ ، افتخار چوہدری بد سلوکی کیس میں توہین عدالت کے جرم میں ہونے والی سزائوں کیخلاف دائر اپیلوں کی سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ

منگل 15 مئی 2018 23:54

اسلام آباد۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 15 مئی2018ء) سپریم کورٹ نے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے ساتھ بد سلوکی کے واقعہ میں ملوث پولیس اورمقامی انتظامیہ کے افسران کو توہین عدالت کے جرم میں ہونے والی سزائوں کیخلاف دائر اپیلوں کی سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا ہے ۔ منگل کو قائمقام چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجربنچ نے کیس کی سماعت کی ، اس موقع پرسابق آئی جی چوہدری افتخار کے وکیل خالد رانجھا نے دوسرے روز بھی اپنے دلائل جاری رکھے اورموقف اپنایا کہ میرے موکل نے پہلے بھی عدالت سے غیرمشروط معافی مانگی تھی اوراب بھی کانوں کو ہاتھ لگا کر عدالت سے معافی مانگتے ہیں۔

جس پرجسٹس آصف سعید کھوسہ نے ان سے کہاکہ جب ہم فیصلے کرتے ہیں تو مستقبل میں اس کے ممکنہ اثرات کوبھی مد نظر رکھنا ہوتا ہے، ہم ایسا فیصلہ کرنا چاہتے ہیں جو سو سال تک اس معاملے کو طے کرے گا۔

(جاری ہے)

سماعت کے دورا ن جسٹس شیخ عظمت سعید نے ان سے کہاکہ جب سابق چیف جسٹس کے ساتھ واقعہ ہوا تھا تو آپ کے موکل کو اسی وقت استعفی دے کر عدالت سے معافی مانگنی چاہیئے تھی،جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ ایک ماہ بعد عدالت کی جانب سے نوٹس جاری کرنے پر معافی مانگی گئی، اب سوال یہ ہے کہ کیسے طے کیا جائے کہ معافی دل سے مانگی گئی یا یہ صرف دکھاوے کیلئے اقدام کیا گیا ، اصل بات یہ ہے کہ جوبات دل سے نکلتی ہے وہ اثر رکھتی ہے لیکن مدعاعلیہان کی جانب سے جمع کرائے گئے معافی ناموں سے لگتا ہے کہ معافی نامے ایک ہی شخص کے تحریر کردہ ہیں، اورایسے معافی ناموں کو کیسے دل سے مانگی گئی معافی کہا جا سکتا ہے، خالد رانجھا کے بعد سابق چیف کمشنر خالد پرویز کے وکیل سردار اسلم نے توہین عدالت کے روبرو اپنے دلائل میں موقف اپنایا کہ عدالت ہماری معافی نامے کوقبول کرے ۔

سماعت کے دورا ن ایڈیشنل اٹارنی جنرل کاکہناتھا کہ یہ عدالت کے رحم و کرم پر ہے کہ وہ ملزمان کو معاف کرے یا سزا دے،فاضل جج نے مزید کہا کہ ہم ابھی تک سمجھنے سے قاصر ہیں کہ چیف جسٹس کے ساتھ یہ بد سلوکی کیوں کی گئی، کس نے ایسا کرنے کا حکم دیا، اور چیف جسٹس کو کیوں روکا گیا، ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا، سوال یہ ہے کہ پولیس والے تو دہشت گردی اور بد نظمی کو روکنے کے لیے تعینات تھے۔

پھر انہوں نے چیف جسٹس کو کیوں روکا، سماعت کے دورا ن کیس کے ایک ملزم ایس ایس پی کیپٹن ریٹائر ظفراقبال نے روسٹرم پرآکربولنے کی کوشش کی لیکن عدالت نے ان کواجازت نہیں دی ، بنچ کے سربراہ نے ان سے کہا کہ جب آپ کا وکیل موجود ہے تو موکل کو بولنے کی اجازت کیونکر دی جائے۔ عدالت نے فریقین کے وکلاء کے دلائل مکمل ہونے کے بعد کیس کافیصلہ محفوظ کر تے ہوئے واضح کیا کہ کیس کافیصلہ سنائے جانے کے وقت تمام ملزمان ذاتی طورپر عدالت میں پیش ہوں۔