ایم کیو ایم پاکستان پی آئی بی گروپ نے 5ہزار 675 ارب کا وفاقی شیڈو بجٹ پیش کردیا

سی پیک منصوبہ کیلئے یونیفارم پالیسی بنائی جانی چاہئے، کراچی سے سی پیک جڑا ہوا نہیں اسے اس کے ساتھ ملانے کی ضرورت ہے، ڈاکٹر فاروق ستار

جمعرات 26 اپریل 2018 22:44

ایم کیو ایم پاکستان پی آئی بی گروپ نے 5ہزار 675 ارب کا وفاقی شیڈو بجٹ پیش ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 26 اپریل2018ء) ایم کیو ایم پاکستان پی آئی بی گروپ کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار 5ہزار 675 ارب کا وفاقی شیڈو بجٹ پیش کردیا۔ 2018-19کے اس بجٹ میں 22ارب روپے کا خسارہ تجویز کیا گیا ہے، سی پیک منصوبہ کے لئے یونیفارم پالیسی بنائی جانی چاہئے، ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی سے سی پیک جڑا ہوا نہیں اسے اس کے ساتھ ملانے کی ضرورت ہے اس سلسلے میں وفاقی و صوبائی حکومتوں نے پس وپیش سے کام لیا ہے،پاکستا ن پر 88ارب ڈالر کے قرضے ہوگئے موجودہ حکومت میں کشکول کا سائز بڑا ہوگیا، انھوں نے مطالبہ کیا کہ نیشنل فائنانس کمیشن فارمولا صوبوں کی سطح پر بھی شروع کیا جائے تاکہ نیشنل فائنانس کمیشن کے تحت جو پیسہ صوبوں کو مل رہا ہے وہ ضلع، تحصیل، اور نچلی سطح تک پہنچ سکے، کم سے کم مزدور کی اجرت 25ہزار ہونا چاہئے،زراعت پرٹیکس لگائے بغیر ملک ترقی نہیں کرسکتا،بجٹ کا پانچ فیصد تعلیم اورپانچ فیصد صحت کے شعبوں پررکھا جائے ، ان خیالات کا اظہار انھوں نے مقامی ہوٹل میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

اس موقع پر ان کے ہمراہ کامران ٹیسوری، سید سردار احمد، شاہد پاشا،سنیٹر نگہت مرزا،رکن قومی اسمبلی عبدالوسیم، رکن قومی اسمبلی شیخ صلاح الدین اور دیگر رابطہ کمیٹی کے اراکین شامل تھے۔ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ ایم کیو ایم سخت تنظیمی بحران کے باوجود بھی چھٹا شیڈو بجٹ پیش کر رہی ہے یہ پاکستان کے بہتر مفاد کے لئے کیا جارہا ہے۔قائد اعظم کے تصور اتحاد ، تنظیم ، یقین محکم، کی بنیاد کو سامنے رکھ یہ بجٹ بنایا گیا ہے۔

70سالوں سے پاکستان میں روایتی بنیادوں بجٹ بنایا جارہا ہے اور ہمارا یہ بجٹ غیر روایتی ہے، ہمارے اس بجٹ میں یوٹیلیٹیز پر ٹیکس کم سے کم لگانے کی تجویز دی گئی ہے تاکہ عام آدمی پر کم سے کم بوجھ ڈالا جاسکے ، انھوں نے کہا کہ زرعی شعبے کو ٹیکس سے مادر پدر آزاد چھوڑ دیا گیا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ 20 سے 25لاکھ سے زائد آمدنی حاصل کرنے والوں پر زرعی ٹیکس لگایا جانا چاہئے۔

انھوں نے کہا کہ صوبوں کو این ایف سی ایواڈ اور 18ویں ترمیم کے ذریعے سے خاصہ پیسہ مل رہا ہے لیکن یہ پیسہ صوبے نچلی سطح تک پہنچانے کے بجائے اپنے پاس رکھ رلیتے ہیں اس لئے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت جو پیسہ صوبوں کو مل رہا ہے وہ ضلع ، تحصیل اور نچلی سطح تک پہنچایا جائے، اور مقامی بلدیاتی حکومتوں کو اختیارات دیئے جائیں۔

انھوں نے کہا کہ سی پیک منصوبے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے یونیفارم پالیسی بنائی جائے، ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی سے سی پیک منصوبہ جڑا ہوا نہیں ہے اسے کراچی کے ساتھ ملانے کی ضرورت ہے اس سلسلے میں وفاقی و صوبائی نے پس و پیش سے کام لیا ہے، سرکولر ریلوے منصوبے کو سی پیک سے جوڑا جائے، اس کے علاوہ قرضوں کی مینجمنٹ بہت ضروری ہے، پاکستان پر 88ارب ڈالر کے قرضوں کا بوجھ ہے موجودہ حکومت میں کشکول کا سائز بڑا ہوگیا۔

ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ بجٹ کا پانچ، پانچ فیصد صحت، تعلیم کے شعبوں کے لئے رکھا جانا ضروری ہے، مزدور کی کم سے کم اجرت 25ہزار ہونی چاہیئے۔اسٹیل مل، پی آئی اے جن پر اربوں روپے کے قرضوں کے دبا میں ہیں اور ادارے انتہائی خسارے میں ہیں انھیں پبلک سیکٹر کے ساتھ ملکر چلایا جائے ، ہم ان اداروں کی مکمل نجکاری کے خلاف ہیں،چھوٹی گھریلو صنعتوں کو وسعت دینے کی ضرورت ہے ، بنگلہ دیش میں 70لاکھ خواتین گھریلو صنعتوں کے لئے کام کر رہی ہیں جس سے بنگلہ دیش کو دو ارب ڈالر زر مبادلہ کی آمدنی ہورہی ہے۔

انھوں نے کہا کہ کرپشن اور اسمگلنگ پر قابو پاکر بھی ملک کی معیشت کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ یہ پہیلی مرتبہ ہوا ہے انتخابات ہونے والے ہیں اور حکومت نے بجٹ بنارہی ہے ، لیکن اس میں کوئی غلط بات نہیں ہے اس حوالے سے عبوری حکومت کو پابند کیا جاسکتا ہے کہ وہ دس یا پندرہ فیصد تک بجٹ کا استعمال کرسکتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ عام آدمی کو ریلیف دینے کے لئے کھانے پینے کی اشیاکی قیمتوں میں کمی کی ضرورت ہے۔ملک سے باہر سے منگوائی گئی مشینری پر بجٹ نہیں ہونا چاہئے، مقامی صنعتوں کو تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔براہ راست ٹیکس میں اضافہ ہونا چاہئے اور باالواسطہ ٹیکس میں کمی، چھوٹے ڈیم بنائے جانے کی ضرورت ہے،اس کے آئی ٹی سیکٹر کو بہت زیادہ ڈیولپ کرنے کی ضرورت ہے۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان کو 20 سے 25ارب ڈالر کا تجارتی خسارے کا سامنا ہے ،ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ دنیا کے حالات میں تیزی سے تبدیلیاں آرہی ہیںتمام دنیا کے ملکوں میں نوکریوں کے حوالے سے مقامی لوگوں کو ترجیح دی جارہی ہے اس وجہ سے بڑی تعداد میں پاکستانی واپس آئیں گے۔اس کے لئے مربوط منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ دینے اور الیکشن لڑنے کا اختیار ہونا چاہئے۔ اور یہ ہماری پالیسی کا حصہ ہے۔انھوں نے کہا کہ جاگیر دار ، وڈیرے اور مراعات یافتہ طبقے کے لوگ اسمبلیوں میں جائیں گے تو کرپشن تو پھر ہوگی ، اسطرح کی پابندی ہونی چاہئے تمام بڑے خاندانوں کا کوئی ایک فرد اسمبلی کے امیدوار کے طور پر سامنے لایا جاسکتا ہے۔