اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا پر امن، جمہوری اور پائیدار حل تلاش کیا جانا چاہیے، سردار مسعود خان

دنیا کی کوئی طاقت کشمیریوں کو جدا نہیں کر سکتی، نام نہاد جمہوریت اور سیکولرزم کی دعوے دار مودی سرکار نے معصوم کشمیریوں پر ظلم و بربریت اور جارحیت کے تمام ریکارڈ تو ڑ دئیے ہیں، بھارت کی جانب سے دوطرفہ مذاکرات محض ایک دھوکہ ہے ،صدرآزادکشمیرکاکوئٹہ میں تقریب سے خطاب

بدھ 25 اپریل 2018 17:00

کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 25 اپریل2018ء) صدر آزاد جموں وکشمیر سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ پاکستان اور کشمیر ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں اور جزو لانیفک ہیں۔ دنیا کی کوئی طاقت انہیں کو جدا نہیں کر سکتی۔ ان خیالات کا اظہار صدر آزادجموں وکشمیر نے کوئٹہ شہر میں نیشنل سکیورٹی ورکشاپ بلوچستان کے زیر اہتمام تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

صدر نے کہا کہ کشمیر کے لوگ گزشتہ دو صدیوں سے آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں انہوں نے کہا کہ پہلے وہ مہاراجہ سے آزادی حاصل کرنے کے لئے جنگ لڑتے رہے اور اب70 سالوں سے بھارت سے اپنی آزادی اور حق خودارادیت کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ70 سال قبل بھارت نی2 لاکھ 47ہزار معصوم کشمیریوں کا قتل عام کیا جو ڈوگرہ و بھارتی افواج اور آر ایس ایس کے انتہاء پسندوں کے ہاتھوں معصوم کشمیریوں کا دوسری عالمی جنگ کے بعد سب سے بڑی نسل کشی تھی اور اڑھائی لاکھ کشمیریوں کو ان کے گھروں سے زبردستی نکال کرنو آزاد پاکستان کی طرف دھکیل دیا گیا۔

(جاری ہے)

صدر آزاد جموں وکشمیر نے کہا ہے کہ بھارت کی یہ پالیسی ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں معصوم کشمیریوں پر اتنا ظلم و جبر ڈھائے کہ ان کے جذبہ حریت کو کچل کر انہیں جدوجہد آزادی سے دستبردار ہونے پر مجبور کر دے اور پاکستان و حریت رہنمائوں کے ساتھ مذاکرات کے دروازے بند کر دے تاکہ اس مسئلے کے جمہوری حل سے راہ فرار اختیار کر سکے۔ جبکہ پاکستان کی پالیسی ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اس مسئلے کا پر امن، جمہوری اور پائیدار حل تلاش کیا جانا چاہیے۔

صدر مسعود خان نے مقبوضہ کشمیر کی تشویشناک صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ برھان مظفر وانی کی شہادت کے بعد کشمیریوں کے دلوں میں جدوجہد آزادی کیلئے ایک نیا جو ش و ولولہ پیدا ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ بھارت کی تمام تر ظالمانہ کاروائیوں ، تشدد ، قتل و غارت گری کے باوجود نڈر و بے باک کشمیری ایک مضبوط و مصمم ، عزم اور حوصلے کے ساتھ آزادی کیلئے اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ نام نہاد جمہوریت اور سیکولرزم کی دعوے دار مودی سرکار نے معصوم کشمیریوں پر ظلم و بربریت اور جارحیت کے تمام ریکارڈ تو ڑ دئیے ہیں معصوم کشمیری نوجوانوں کو سرعام قتل کیا جار ہا ہے ۔ پیلٹ گنوں سے انہیں بینائی سے محروم اور معذور کیا جا رہا ہے۔ انہیں غیر قانونی طور پر حراست میں لیا جاتا ہے اور دوران حراست ہی انہیں غائب اور قتل کیا جا رہا ہے ۔

خواتین کے ساتھ ریپ اور عصمت دری کی جارہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ قابض بھارتی افواج نے پورے جموں وکشمیر کا محاصرہ کرکے کرفیو جیسے حالات پیدا کر رکھے ہیں اور سرچ آپریشن کی آڑ میں کشمیریوں کے گھروں پر غیر قانونی طور پر چھاپے مارے جار ہے ہیں جس سے چادر اور چاردیواری کے تقدس کو بری طرح سے پامال کیا جار ہا ہے۔ کشمیریوں کے گھروں اور ان کی املاک کو تباہ کیا جار ہا ہے۔

کشمیر کے ہر گھر سے لاشے اُٹھ رہے ہیں لیکن اس کے باوجود جرائتمند کشمیریوں کے حوصلے بلند ہیں اور وہ تحریک آزادی کی مشعل کو پورے عزم صمیم کے ساتھ تھامے ہوئے ہیں ۔ صدر آزاد جموں وکشمیر نے کہا کہ بھارت کی جانب سے دوطرفہ مذاکرات محض ایک دھوکہ ہے جس سے بھارت صورت موقع بحال رکھناچاہتا ہے اور اپنے ناجائز قبضہ کو طول دینا چاہتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کا یہ موقف کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے سرا سر بے بنیاد ہے کیونکہ 70 سالوں سے بھارت ظلم و جبر اور سیاسی و معاشی لالچ دینے کے باوجود کشمیریوں کے نہ دل جیت سکا اورنہ ہی وہ کشمیریوں کے جذبہ حریت کو سرد کر سکا۔

انہوں نے کہا کہ بھارت دنیا کو گمراہ کرنے کے لئے پاکستان پر دراندازی کا الزام لگا رہا ہے لیکن حقیقت اس کے کلیتاًبرعکس ہے کیونکہ مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی جانب سے کوئی دہشت گردی نہیں ہو رہی ہے ، اگر کوئی دہشت گردی ہو رہی تو وہ صرف اور صرف بھارت کی جانب سے ریاستی دہشت گردی کی جا رہی ہے۔ صدر نے کہا کہ بھارت نے اس بات کا خود اعتراف کیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں چند مٹھی بھرمزاحمت کار ہیں جبکہ اس نے ان چند مٹھی بھرمزاحمت کاروں کو دبانے کے لئے 7 لاکھ مسلح افواج کیونکر تعینات کر رکھی ہی انہوں نے اس بات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان یا آزادکشمیر کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں کسی قسم کی کوئی در اندازی نہیں ہو رہی ہیں بلکہ جموں وکشمیر کے مقامی غیر مسلح حریت پسند اپنی آزادی و حق خودارادیت کے حصول کے لئے پرامن جدوجہد کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ خود بھارتی افواج کا یہ دعویٰ ہے کہ انہوں نے سرحدی علاقوں میں 14فٹ اونچی اور 550کلو میٹر طویل باڑ لگا رکھی ہے جس میں برقی کرنٹ کے علاوہ جدید مواصلاتی و آلارمنگ سسٹم نصب شدہ ہے جہاں سے دراندازی نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہے ایسی صورت میں بھارت کا دنیا کو گمراہ کرنے کا یہ ایک پروپیگنڈہ ہے۔ صدر مسعود خان نے کہا ہے کہ کشمیریوں نے 19جولائی1947ء کو پاکستان کے ساتھ الحاق کا دانشمندانہ فیصلہ کیا ہے اور آج بھی کشمیری اپنے خون سے آزادی کے پودے کو سیج رہے ہیں اور یہی نعرہ بلند کر رہے ہیں کہ جائو بھارت واپس جائو، ہم کیا چاہتے ہیں آزادی، ہم لے کے رہیں گے آزادی، پاکستان سے رشتہ کیا لا الہٰ الا اللہ اور کشمیر بنے گا پاکستان۔

اس موقع پر صدر آزاد جموں وکشمیر نے بلوچستان کے عوام کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے ہمیشہ کشمیریوں کا ساتھ دیا اور اس بات کا ثبوت دیا کہ کشمیر ہمارے رگ و پے میں ہے ۔ ان کے اس جذبے سے ثابت ہے کہ بلوچستانی اور کشمیری ایک دوسرے کے ساتھ گہرا رشتہ رکھتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک کے باعث بلوچستان میں ایک بڑی تبدیلی آنے والی ہے یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا کی نظر میں اسوقت بلوچستان اور پاکستان پر جمی ہوئی ہیں۔

اقتصادی راہداری کے ذریعے نہ صرف خوشحالی آئے گی بلکہ گوادر سے لیکر خنجراب تک پاکستانیوں کے مابین روابط کا سلسلہ مزید مستحکم ہو گا۔ صدر نے کہا کہ بھارت نے پاکستان کو کمزور کرنے کے لئے پاکستان کے مختلف علاقوں میں اور بالخصوص بلوچستان پاکستان میں انارکی، خلفشار پیدا کر رہی ہیں اور دہشت گردی کروا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں چوکنا رہنا پڑے گا اور اپنی صفوں میں اتحاد و اتفاق کو مضبوط کرنا ہو گا ۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں سوشل میڈیا اور جدید ذرائع ابلاغ کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے دنیا کو آگاہ کرنا ہو گا تاکہ بھارت کا مکرہ چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب ہو سکے۔ صدر مسعود خان نے کہا کہ آزادکشمیر حکومت کی تین ترجیحات ہیں جن میں مسئلہ کشمیر ، گڈ گورننس اور تعمیر و ترقی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آزادکشمیر بھی سی پیک کا حصہ بن چکا ہے اور یہ خطہ تیزی سے اقتصادی ترقی کی منازل طے کر رہا ہے جوکہ پاکستان کے لئے ایک اثاثہ بن کر سامنے آئے گا۔

صدر نے بلوچستان کے سرمایہ کاروں کو آزادکشمیر میں سرمایہ کاری کرنے کی دعوت دی۔ تقریب میں بریگیڈیئر لیاقت محمود، بریگیڈئیر عمرا، صوبائی اسمبلی کے اراکین، دانشوروں ، بلوچستان کی مختلف جامعات کے سینئر فیکلٹی ممبران و سول بیوروکریسی کے سینئر آفیسران نے بھی شرکت کی۔