گوادر کی اہم اسٹریٹجک بندرگاہ ، پاکستان کی دبئی بننے کی خواہش

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین بدھ 25 اپریل 2018 11:36

گوادر کی اہم اسٹریٹجک بندرگاہ ، پاکستان کی دبئی بننے کی خواہش
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 25 اپریل 2018ء) : گوادر کی اہم اسٹریٹجک بندرگاہ کو ڈیوٹی فری اورفری اکنامک زون میں تبدیل کرنا گذشتہ کافی عرصہ سے پاکستان کا خواب رہا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان پانی کی قلت کا شکار ہونے کے باوجود اپنی اس بندرگاہ سے دبئی کا مقابلہ کر سکےگا؟ العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق پاکستان اور اس کا ہمسایہ ملک چین ایران کے قریب اور خلیج فارس کے دہانے پر واقع اس بندرگاہ کو علاقائی، تجارتی، صنعتی اور جہاز رانی کا مرکز بنانے کے خواہشمند ہیں۔

یہ بندرگاہ چین پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) کا حصہ ہے۔ سی پیک کے ذریعے چین کو مشرق وسطیٰ تک محفوظ اور مختصر ترین تجارتی راستہ حاصل ہو جائے گا اور پاکستانی معیشت بھی اس سے فائدہ حاصل کر سکے گی۔

(جاری ہے)

رپورٹ کے مطابق فی الوقت پاکستان کے اس ''نئے دبئی'' کی اصل دبئی سے صرف ایک مماثلت ہے اور وہ یہ ہے کہ یہاں بھی پانی کی شدید کمی ہے۔ ایک مقامی صحافی ساجد بلوچ کا تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’گذشتہ تین برسوں سے یہاں بارش نہیں ہوئی۔

‘‘ بلوچستان کی صوبائی حکومت کے زیر انتظام گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے عبدالرحیم کا کہنا تھا کہ ''گوادر کی پیاس'' میں موسمیاتی تبدیلیوں کا بھی بڑا کردار ہے۔ ان کے مطابق اس وقت گوادر کو پانی کی قلت سمیت پانی کے شدید مسائل کا سامنا ہے۔ گوادر کے مضافات میں واقع آنکارا کور ڈیم میں پانی کے ذخائر دو برس پہلے ہی خشک ہو گئے تھے اور اب پانی دور دراز کے علاقوں سے لایا جا رہا ہے۔

دور سے لایا جانے والا کچھ پانی تو اس قدر آلودہ ہوتا ہے کہ اس سے ہیپاٹائٹس جیسی موذی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ عبدالرحیم کے مطابق ’’زیر زمین پانی بھی نہیں نکالا جا سکتا کیونکہ زیر زمین پانی نمکین ہو چکا ہے۔‘‘ فی الحال گوادر کی آبادی ایک لاکھ افراد پر مشتمل ہے لیکن اندازوں کے مطابق 2020ء تک یہ آبادی بڑھ کر 5 لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ گوادر میں معاشی سرگرمیوں سے پہلے مقامی آبادی کا انحصار زیادہ تر ماہی گیری پر تھا اور حکومت کے ان بڑے منصوبوں سے انہیں ابھی تک براہ راست کم ہی فائدہ پہنچا ہے۔

پانی کی شدید قلت پر قابو پانے کے لیے چینی ماہرین کی مدد سے اس علاقے میں سمندری پانی صاف کرنے کے دو پلانٹ تعمیر کیے گئے ہیں۔ چھوٹا پلانٹ روزانہ 2 لاکھ گیلن پینے کا صاف پانی فراہم کر سکتا ہے جبکہ حال ہی میں تکمیل پانے والا دوسرا پلانٹ ڈیوٹی فری زون میں تعمیر کیا گیا ہے اور یہ روزانہ تقریباﹰ 4 لاکھ گیلن صاف پانی فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

دوسری جانب پاکستانی فوج بھی متحدہ عرب امارات اور سوئٹزرلینڈ کی مدد سے اس علاقے میں پانی صاف کرنے کا ایک پلانٹ تعمیر کر رہی ہے۔ یہ پلانٹ اس علاقے کو روزانہ 44 لاکھ گیلن پانی فراہم کر سکے گا۔ پاکستانی فوج کے مطابق علاقے میں بہتر سہولیات اور صاف پانی کی فراہمی سے مقامی سطح پر حمایت حاصل کی جا سکتی ہے۔ پاکستانی فوج نے مقامی آبادی کے دل جیتنے کے لیے یہاں ماہر ڈاکٹر بھی تعینات کیے ہیں، جو مقامی ہسپتالوں میں کام کر رہے ہیں۔

ایک نئی سڑک سے بندرگاہ کو مکران ساحلی ہائی وے سے جوڑ دیا جائے گا جبکہ گوادر کا زیر تعمیر ایئر پورٹ مستقبل میں پاکستان کا سب سے بڑا ایئر پورٹ ہو گا۔ گوادر میں بجلی کی بلاتعطل فراہمی کے لیے چائنہ پاور کمپنی 3 سو میگا واٹ کا ایک پلانٹ بھی لگا رہی ہے جبکہ اس علاقے میں سیاحوں کی آمد و رفت کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے۔ بندرگاہ کے سکیورٹی افسر منیر احمد کا کہنا تھاکہ گزشتہ دو برس کے دوران گوادر کی سکیورٹی کی صورتحال بہتر ہوئی ہے ، اگر حالیہ عرصے میں ہونے والی پیش رفت کو دیکھا جائے تو ''نیا دبئی'' تعمیر کرنے کا خواب ایک عشرے یا اس سے کچھ زائد عرصے میں شرمندہ تعبیر ہو جائے گا۔