سپریم کورٹ نے این آراو کے حوالے سے کیس میںسا بق صدور پرویزمشرف، آصف زرداری ،

سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم اور قومی احتساب بیورو کو نوٹس جاری کردیئے

منگل 24 اپریل 2018 22:52

سپریم کورٹ نے این آراو کے حوالے سے کیس میںسا بق صدور پرویزمشرف، آصف ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 24 اپریل2018ء) سپریم کورٹ نے این آراو کے حوالے سے کیس میںسا بق صدور پرویزمشرف، آصف زرداری ، سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم اور قومی احتساب بیورو کو نوٹس جاری کر تے ہوئے ان سے جواب طلب کر لیا ہے اورکیس کی مزید سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کر تے ہوئے کہاہے کہ عدالت اس امر کا جائزہ لے گی کہ سپریم کورٹ نے کس مقصد کیلئے ازخود نوٹس لیا تھا ، منگل کوچیف جسٹس میا ں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی ۔

اس موقع پر درخواست گزار سید فیروز شاہ گیلانی نے پیش ہوکر عدالت کو بتایا کہ این آر او کی وجہ سے ملک کو اربوں روپے کانقصان پہنچا ہے ، اس لئے میری ا ستدعا ہے کہ این آر او قانون بنانے والوں سے نقصان کی رقم وصول کی جائے، چیف جسٹس نے درخواست گزار سے کہا کہ انہوں نے اپنی درخواست میں کس کو فریق بنایا ہے جس پردرخواست گزار نے بتایا کہ انہوں نے پرویز مشرف، آصف زرداری، ملک قیوم اور نیب کو فریق بنایا ہے۔

(جاری ہے)

این آراو کے ذمہ دار یہی ہیں،چیف جسٹس نے کہا کہ یہ مقدمہ دائر کرنے کے سلسلے میں آپ کا کونسا بنیادی حق متاثرہوا ہے، جبکہ عدالت پہلے ہی این آر او قانون کالعدم قرار دے چکی ہے۔ بعدازاں عدالت نے مدعاعلیہان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے مزید سماعت ایک ماہ کے لئے ملتوی کر دی،۔دریں اثنا اسی بنچ نے این آر او سے فیض یاب ہو نے والے افراد کی تعیناتیوں پر توہین عدالت کے مقدمے کی بھی سماعت کی اور سابق ڈی جی ایف آئی اے احمد ریاض شیخ کے خلاف سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے دور میں لیا گیا ازخود نوٹس واپس لے لیا ۔

سماعت کے دوران احمد ریاض شیخ کے وکیل عبدالباسط نے پیش ہوکرعدالت کوبتایاکہ 850 کے قریب افراد نے این آر او سے فائدہ اٹھایا ہے جن میں سے صرف دو افراد کو ٹارگٹ کیا گیا، میرے موکل احمد ریاض شیخ نے مراعات واپس کر دی تھیں، احمد ریاض شیخ کو 4 سال سزا اور ایک کروڑ جرمانہ بھی کیا گیا تھا ، انہیںسزا آمدن سے زائد اثاثے بنانے پر دی گئی ، انہوں نے عدالت کے استفسار پر مزید بتایا کہ اس وقت احمد ریاض شیخ ایڈیشنل ڈی جی ایف آئی اے تھے ، سماعت کے دورا ن عدالت کو نیب کے پراسیکیوٹر نے بتایا کہ این آر او کے تحت احمد ریاض شیخ کی سزا معاف کی گئی تھی، جب این آر او کالعدم قرار دیا گیا تو احمد ریاض شیخ گرفتار ہوگئے۔

فا ضل وکیل نے کہا کہ احمد ریاض شیخ نے بقیہ سزا پوری کرلی ہے، نیب کی رپورٹ بھی موجود ہے کہ احمد ریاض شیخ سے جو واپس لینا تھا وہ لے لیا گیاہے ، جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ عدالت دیکھے گی کہ سپریم کورٹ نے کس چیز کاجائزہ لینے کے لیے ازخود نوٹس لیا تھا۔ فاضل وکیل نے کہا کہ احمد ریاض شیخ نے این ار او جوبھی فائدہ اٹھا یا ہے وہ واپس کر دیا ہے جس پر نیب کے وکیل نے بتایا کہ احمد ریاض شیخ نے پانچ سال سزا پوری کرد ی لیکن دو کروڑ جرمانہ ادا نہیں کیا ہے ،کیونکہ دو کروڑ جرمانہ صدارتی معافی سے ختم کردیا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہائی کورٹ کے حکم میں جائیداد کی ضبطی اور دوکروڑ جرمانہ بھی تھا، اگر جائیداد ضبط نہیں ہوئی تو اب ضبط کر لیتے ہیں۔ایڈووکیٹ ابراہیم ستی نے کہا کہ ایشو یہ ہے کہ سزا یافتہ شخص دوبارہ کیسے بحال ہو سکتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ سزا یافتہ شخص سرکاری عہدہ پر بحال نہیں ہو سکتا۔ ریاض شیخ کے وکیل نے کہا کہ ہائی کورٹ نے جائیداد ضبطی کا حکم ختم کر دیا تھا، این ار او کالعدم ہونے کے بعد احمد ریاض شیخ نوکری سے بھی برخاست ہوگئے تھے جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ جب نوکری سے برخاست ہو گئے تو ازخود نوٹس کی کیا ضرورت تھی۔ بعدازاں عدالت نے احمد ریاض شیخ کے خلاف سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے دور میں لیا گیا ازخود نوٹس واپس لیتے ہوئے کیس نمٹادیا ۔