صنعتوں کو پیداواری،مسابقتی لحاظ سے مستحکم بنانے کیلیے قابل بھروسہ،سستی توانائی کی ضرورت ہے،مفسر ملک

رنیووبل انرجی کے فروغ سے کاروبار، صنعتوں کو توانائی میں خودمختار بنایا جاسکتا ہے،صدر کراچی چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری

منگل 24 اپریل 2018 19:36

صنعتوں کو پیداواری،مسابقتی لحاظ سے مستحکم بنانے کیلیے قابل بھروسہ،سستی ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 24 اپریل2018ء) کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری ( کے سی سی آئی ) کے صدر مفسر عطا ملک نے کہا ہے کہ صنعتوں کو پیداوار بڑھانے اور مسابقتی لحاظ سے مضبوط بنانے کے لیے قابل بھروسہ اور سستی توانائی کی ضرورت ہے جبکہ ان صنعتوں کو ماحول کو تحفظ فراہم کرنے اور توانائی کی بڑھتی طلب کے درمیان مناسب توازن تلاش کرنا ہو گا۔

پاکستان میں بڑے اور اقتصادی طور پر قابل عمل ونڈ، سولر، بائیوماس، ویسٹ، جیو تھرمل اور ہائیڈل پاور کے ممکنہ وسائل موجود ہیں جنہیں استعما ل میں لانے کی ضرورت ہے۔رنیووبل انرجی ،توانائی کے حصول کا ایک مناسب طریقہ ہے جس سے کاروبار، باالخصوص ایس ایم ایز کی توانائی کی ضروریات کو با آسانی پورا کیاجاسکتا ہے۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے یونیڈو کے زیر اہتمام ’’رنیووبل انرجی‘‘ پر تربیتی سیشن سے خطاب میںکیا۔

اس موقع پر حکومت سندھ کے محکمہ توانائی کے خصوصی سیکریٹری راشد حسین قاضی، یونیڈو کے نیشنل پروجیکٹ کوآرڈینیٹر مسرور احمد خان و دیگر نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔یونیڈو نے اپنے جی ای ایف فنڈ کے تحت جاری پروجیکٹ ’’ پاکستان میں صنعتوں کے لئے پائیدار توانائی کے اقدامات ‘‘ کے موضوع پر کامیابی کے ساتھ کراچی میں دو تربیتی نشستوں کا اہتمام کیا۔

مفسر ملک نے کہاکہ صنعتی پیداواری عمل اور سماجی اقتصادی ترقی میں توانائی کی پیداوار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔زمینی ایندھن پر زیادہ انحصار ماحولیاتی تبدیلی اور گرین ہاؤس گیس کے اخراج کا باعث ہے۔ توانائی کا زیادہ تر انحصار تیل کے مرکب،قدتی گیس اور کوئلے پر ہے جو اقتصادیات اور ماحولیات دونوں پر ہی اثرانداز ہوتے ہیں۔کوئلے اور تھرمل پاور پلانٹس کے برعکس سولر اور ونڈ انرجی سے توانائی کی پیداوار آلودگی کا باعث نہیں بنتی اور نہ ہی ان سے زمین کے درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے جوانسانی صحت کو خطرے سے دوچار کرنے کی وجوہات بنتی ہیں ۔

یہ ایک سنگین قومی اور بین الاقومی مسئلہ ہے جس کے باعث سیلاب اور قدرتی آفات میں اضافہ ہوتا ہے۔کے سی سی آئی کے صدر نے کہاکہ ماحول پر تھرمل بجلی کی پیداوار کے خطرات کے علاوہ مہنگی تھرمل بجلی کی پیداوار سے کاورباری لاگت میں اضافہ ہوتا ہے خاص طور پر جب تیل کی قیمتوںمیں اضافہ ہورہا ہو۔رنیووبل توانائی کو فروغ دینے سے کاروباری اداروں اور صنعتوں کو توانائی میں خودمختار بنانے اور توانائی کی قیمتوں کے عدم استحکام سے متاثر ہونے سے بچانے میں مدد ملے گی۔

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہاکہ حال ہی میں مختلف صنعتوں نے بلاتعطل بجلی کی فراہمی کے لیے کیپٹیو پاور جنریشن کا طریقہ اختیار کیا جو تھرمل پلانٹ ہونے کی وجہ سے توانائی پیدا کرنے کابہت مہنگا ذریعہ ہے۔بجلی کی پیداوار کے لیے رنیووبل توانائی کے وسائل کے استعمال سے صنعتیں اپنے ذاتی استعمال کے لئے وافر مقدار میں بجلی پیدا کر سکتی ہیں اور تیل کی قیمیتوں کے عدم استحکام سے بھی بچا جا سکتا ہے جبکہ اضافی بجلی گرڈ کے ذریعے فروخت بھی کی جاسکتی ہے۔

مفسر ملک نے کہا کہ تیل کی بڑی مقدار میں درآمد تجارتی خسارے کی بڑی وجہ ہے ۔پاکستان کے تیل و قدرتی گیس کے وسائل بھی تیزی سے کم ہورہے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ زمینی ایندھن پر انحصار کم سے کم کیا جائے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کو اپنی توانائی پالیسی کو بجلی کی پیداوار کے متبادل ذرائع کی طرف منتقل کرنا ہوگا۔ جیسا کہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان دیکھا جارہاہے لہٰذا متبادل توانائی کے وسائل پر انحصار انتہائی اہم ثابت ہوگا۔

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہاکہ ملک کی خوشحالی اور استحکام کے لیے ہائیڈل جنریشن کو بڑھانے یا پھر حکومت اور نجی شعبے کی مشاورت سے سستی رینیووبل اور متبادل توانائی کے وسائل پر مشترکہ طور پر کام کرنا ایک اچھا حل ثابت ہوسکتا ہے جبکہ پیشہ ور افراد کی صلاحیتوں میں اضافے اور مقامی صنعت کو بہترین عالمی معیارات کی طرف لے جانے کے حوالے سے یونیڈو کی کوششیں بھی قابل ستائش ہیں۔

اس موقع پر حکومت سندھ کے محکمہ توانائی کے خصوصی سیکریٹری راشد حسین قاضی نے ملک میں توانائی کے رنیووبل وسائل سولر، ونڈ اور ہائیڈرو کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے صنعتی ترقی کوفروغ دینے میں یونیڈو کی کوششوں کو بھی سراہا۔یونیڈو کے نیشنل پروجیکٹ کوآرڈینیٹر مسرور احمد خان نے یونیڈو کی جانب سے پاکستان کی صنعتوں کے لیے پائیدار توانائی کے اقدامات کو اجاگر کیا۔انہوں نے شرکاء کو منصوبے کی اہم خصوصیات سے آگاہ کرتے ہوئے اس منصوبے کی اہمیت پر زور دیا بالخصوص ایسے وقت میں جب ملک میں نئے مواقع اُبھر رہے ہوں ۔