سپریم کورٹ نے زلزلہ متاثرین کی بحالی کے حوالے سے مقدمہ میں سیکرٹری خزانہ کو طلب کرلیا، کیس کی سماعت بدھ تک ملتوی کردی

پیر 23 اپریل 2018 23:29

سپریم کورٹ نے زلزلہ متاثرین کی بحالی کے حوالے سے مقدمہ میں سیکرٹری ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 23 اپریل2018ء) سپریم کورٹ نے زلزلہ متاثرین کی بحالی کے حوالے سے مقدمہ میں سیکرٹری خزانہ کو طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت بدھ تک ملتوی کردی ہے۔ پیرکوچیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے 2005ء میں آنے والے زلزلہ کے متاثرین کیلئے ملنے والے فنڈز کے استعمال سے متعلق کیس کی سماعت کی، اس موقع پر ایراکے نمائندہ نے پیش ہوکرعدالت کوبتایاکہ ترقیاتی فنڈز براہ راست ایراکے پاس نہیں آئے بلکہ ڈونرز اپنے امدادی اورترقیاتی فنڈز براہ راست حکومت کودیتے ہیں ، جسٹس اعجازالاحسن نے نمائندے سے استفسارکیا کہ کیازلزلہ سے متاثرہ علاقے میں کوئی ہسپتال بنایا گیا ہمارے پاس اس حوالے سے پہلے ہی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی رپورٹ آچکی ہے۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس نے ایرا کے نمائندے سے کہاکہ عدالت کوبتایا جائے کہ ڈونرایجنسیز سے متاثرین/متاثرہ علاقے کے لئے کتنی امداد آئی تھی جس کا جائزہ لینے کے بعد ہی ہم آگے بڑھ سکیں گے عدالت کو درخواست گزار نے بتایا کہ 2007ء میں 12ہزارکنال رقبہ ایرا کے حوالے کیا گیا لیکن آج 11سال گزرچکے ہیں لیکن ایرا اس عرصہ میں اس اراضی پرایک پلاٹ بھی تیار نہیں کرسکی، بے شک عدالت بالاکوٹ شہرکادورہ کرلے ، عوام کیلئے امداد اورفنڈز آنے کے باوجود انہیں کچھ نہیں مل سکا جس کی وجہ سے بالاکوٹ کے لوگ اذیت کی زندگی بسرکررہے ہیں،جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر حکومت کو حساب دیناہوگا کہ کتنی رقم باہرسے آئی ،کتنی رقم پاکستان سے اکٹھی ہوئی اور یہ ساری رقم کہاں خرچ ہوگئی یاچلی گئی۔

ایرانے تومنصوبوں پر عمل درآمد کرواناتھا ، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت آڈیٹر جنرل کوبلاکرپوچھے گی کہ زلزلہ متاثرین کے لئے کتنی رقم آئی۔ اوراس کاکیا بن گیا درخواست گزار نے کہاکہ عدالت کے نوٹس لینے کے بعد ایرا حرکت میں آئی ہے اوراب کل ایرا کنگ عبداللہ ہسپتال کا افتتاح کرنے جا رہی ہے، چیف جسٹس نے سوال کیا کہ بیس ارب روپے متاثرہ علاقوں میں کہاں خرچ کیے گئے ہیں، بیس ارب خرچ کرنے کا آڈٹ کرکے دیا جائے ،ہم حکومت سے پوچھ سکتے ہیں کہ اس نے ایرا کو کتنے فنڈز دیئے، زلزلے کے بعد پاکستان کی عوام نے بھی ڈونیشن دی تھی ، بیرون ممالک سے بھی پاکستانیوں نے عطیات بھیجے ، زلزلہ دو ہزار پانچ میں آیا لیکن ایرا تیرا سال میں بالاکوٹ کو آباد نہ کر سکا تو اس کی کارکردگی سامنے ہے، ایسی صورت میں ادارے کی ضرورت کیا ہے، درخواست گزار نے کہاکہ چار لاکھ بچے ابھی بھی کھلے سکولوں میں پڑھ رہے ہیں، جہاں چاردیواری ہے نہ چھت ،جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھاکہ چھ سو ارب روپے میں چھ سو نئے شہر آباد ہو سکتے تھے، لیکن ایرا نے کچھ بھی نہیں کیا ۔

ایک استفسارپرایرا کے نمائندے نے کہاکہ وزیراعظم نے 14ہزاراسکیموں کی منظوری دیدی ہے جن میں سے 10ہزاراسکیموں پرکام ہوچکاہے جبکہ 1640اسکیموں پرکام مکمل ہوناباقی ہے۔ تاہم ایراکے انتظامی اخراجات ایک ارب سے زائد ہیں۔ہم چاہتے ہیں خیبرپختواہ حکومت ہم سے کام لے۔چیف جسٹس نے کہاکہ ایراسے کام ہوتانہیں ،ہمیں ملنے والی سیشن جج کی رپورٹ سے معلوم ہوتاہے بالاکوٹ میں کچھ نہیں ہوا۔

،نمائندہ ایرا نے کہاکہ ہم نے ہسپتال کی تعمیر کرکے صوبائی محکمہ صحت کے حوالے کر دیا ہے تاہم 13سال میں ایر اپنا کام مکمل نہیں کر سکا کیونکہ فنڈز جس انداز سے ملتے ہیں تویہ کام پندرہ سال میں مکمل ہونگے، جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ کیا حکومت نے یہ ساری امداد قومی مجموعی فنڈز میں ڈال دی ، درخواست گزار نے کہاکہ زلزلے سے 8049عمارتوں کو نقصان ہوا، اور3847تعلیمی ادارے تباہ ہوئے ہیں وہاں جتنا بھی کام ہوا ہے وہ غیر ملکی امداد سے ہو رہا ہے بعد ازاں عدالت نے سیکرٹری خزانہ کو طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت بدھ تک ملتوی کردی۔