مجسمہ ساز اور آٹسٹ شاہد سجاد کا کام جو قومی ورثہ ہے کو ضائع ہونے سے بچایا جائے ، آئندہ نسلوں کیلئے اس کو محفوظ کیا جائے ، دانشور انور مقصود

وزیراعظم ،چیف جسٹس ، آرمی چیف، گورنراور وزیراعلیٰ سندھ اس ورثے کو بچانے میں کردار ادا کریں، شاہد سجاد کی بیوہ کی احمد ودیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس

پیر 23 اپریل 2018 22:11

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 23 اپریل2018ء) ممتاز آرٹسٹ و دانشور انور مقصود ،صدر آرٹس کونسل محمد احمدشاہ، ممتاز صحافی غازی صلاح الدین اور ممتاز آرٹسٹ شاہد سجاد کی بیوہ سلمانہ شاہد سجاد نے مطالبہ کیا ہے مجسمہ ساز اور آٹسٹ شاہد سجاد کا کام جو قومی ورثہ ہے کو ضائع ہونے سے بچایا جائے اور آئندہ نسلوں کے لئے اس کو محفوظ کیا جائے جس کو عجلت میں گرایا جارہا ہے، وزیراعظم ،چیف جسٹس آف پاکستان، آرمی چیف، گورنراور وزیراعلیٰ سندھ اس ورثے کو بچانے میں کردار ادا کریں۔

شاہد سجاد قومی ہیرو صادقین، چغتائی اور شاکر کے معیار کے آرٹسٹ تھے ان کا ورکشاپ کو فوراً ختم کردیاگیا تو قوم اور خصوصاً آئندہ نسل اس قومی ورثہ سے محروم ہوجائے گی۔ حکومت کو چاہئے کہ شاہد سجاد کے ورکشاپ کو قومی عجائب گھر قرار دے کر محفوظ کرے۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کی شام آرٹس کونسل کے منظر اکبر ہال میں سول سوسائٹی کے ممبران کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے کہاکہ شاہد سجاد نے ساری زندگی پاکستان میں مجسمہ سازی کی، ان کا کام موہنجودڑو کی طرح قومی ورثہ ہے۔ آج کی پریس کانفرنس کا مقصد ان کے آرٹ اسٹوڈیو کو بچانے کی اپیل اور اس کو محفوظ بنانا ہے جس کو خالی کریا جارہا ہے۔شاہد سجاد نے 50سال اس اسٹوڈیو میں مجسمہ سازی کی جو ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔ یہ آرٹ اسکول کسی ایک فرد کا مسئلہ نہیں یہ قومی مسئلہ ہے کیونکہ شاہد سجاد پاکستان کے ہیرو تھے اور ہیں ان کا کام ہمیشہ زندہ جاوید رہے گا۔

یہ شہریوں کا حق ہے کہ آئندہ نسلوں کے لئے اس قومی ورثہ کو محفوظ کرکے اس کو عجائب گھر کا درجہ دیا جائے جو ایک قومی تاریخ کی حیثیت رکھتا ہے۔ انور مقصود نے کہاکہ شاہد سجاد کا کام صادقین،چغتائی اور شاکر کے معیار کاہے، انہوں نے پوری دُنیا میں مجسمہ سازی کے ذریعے اپنی ایک پہچان بنائی۔ اس آرٹ اسکول میں انہوں نے ساری زندگی کام کیا، پوری زندگی وہ ایمانداری اور لگن سے کام کرتے رہے اگر وہ صحیح انسان نہ ہوتے تو اس شہر میں کئی بنگلوں کے مالک ہوتے۔

محمد احمد شاہ نے کہاکہ آرٹس کونسل فنون و لطیفہ کو محفوظ رکھنے والا ادارہ ہے، شاہد سجاد کے کام کو محفوظ رکھنے میں آرٹس کونسل سول سوسائٹی کے ساتھ کھڑی ہے۔ سلمانہ شاہد سجاد نے کہاکہ احمد شاہ اور انور مقصود کی حوصلہ افزائی سے مجھ میں یہ ہمت آئی ہے کہ میں بات کروں اور میں یہ کہوں گی کہ یہ آرٹ اسکول ہمارے لئے بہت اہم ہے کیونکہ شادی کے بعد میں اسی جگہ پر رخصت ہوکر آئی تھی اور ساری زندگی میں نے سجاد کے ساتھ اسی آرٹ اسکول میں گزاری اور ہر لمحہ اُن کے شانہ بشانہ رہی ، اسکول سے ہماری یادیں وابستہ ہیں ہم اس کو کسی صورت بھی کھونا نہیں چاہتے۔

لیکن کورٹ کے فیصلے کا ہمیں احترام ہے ، ہماری درخواست یہ ہے کہ حکومت ِ وقت اس آرٹ اسکول کوہٹانے کا نوٹس لے اور وفاقی و صوبائی حکومت مل کر اس مسئلے کو حل کرے کیونکہ یہ اسکول ایک اثاثہ ہے اور اثاثے کو بچانا حکومتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔غازی صلاح الدین نے کہاکہ شاہد سجاد نے ساری زندگی ملک کے کلچر و ثقافت کو پروموٹ کرنے کے لئے کام کیا، آرٹ، کلچر، علم اور فکر کو بچانا حکومتوں کی ذمہ داری ہے، حکومت اس میں اپنا کردار ادا کرے اور اس جگہ پر مجسمہ سازی کی تعلیم کے لئے اسکول قائم کردے۔