یمن ،نام نہاد حوثی عدالت نے 22 سالہ دو شیزہ کو سزائے موت سنا دی،ایمنسٹی کا اسما العمیسی کی فوری رہائی کا مطالبہ

ہفتہ 21 اپریل 2018 19:22

صنعاء (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 21 اپریل2018ء) یمن کے دارالحکومت صنعا پر قابض حوثی ملیشیا کی ایک نام نہاد فوجی عدالت نے شفافیت اور فری ٹرائل کے تمام معیارات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک 22 سالہ دو شیزہ کو سزائے موت سنا دی ، یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے جس میں کسی یمنی لڑکی کو آئینی حکومت کی حمایت کرنے والے عرب ملک کے لیے جاسوسی کرنے کا الزام عاید کیا گیا ہے۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق 22 سالہ اسما العمیسی اس وقت صنعا میں ایک قید خانے میں پابند سلاسل ہیں۔ وہ دو بچوں کی ماں بھی ہیں۔سیاسی بنیادوں پر مخالفین کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنانے کے دیگر ان گنت حوثی جرائم میں کسی لڑکی کو اس طرح کی سنگین سزا دینا ان کے جرائم میں ایک نیا اضافہ قرار دیا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسما العمیسی کو دی جانے والی سزا پر حوثیوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور اسے دی گئی ظالمانہ سزا پر فوری نظر سانی اور اس کی غیر مشروط رہائی کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔

اسما العمیسی وسطی شمن کے شہر اب میں السدہ کے مقام پر 7 جولائی 1995 کو ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئی۔ اس کی والدہ کا تعلق جنوب مشرقی شہر حضرت الموت کے علاقے المکلا سے تھا۔ العمیسی نے ابھی اسکول کی نو جماعتیں پاس کی تھیں کہ اس کی شادی ایک شخص کے ساتھ کر دی گئی۔ اس شادی سے ان کا ایک بچہ اور بچی پیدا ہوئے۔آٹھ سال کے بعد اسے طلاق ہو گئی اور دو سال کے وقفے کے بعد اس نے مئی 2015 کو القاعدہ کے ایک مقامی کمانڈر خلد سالم الصعیری کے ساتھ شادی کی۔

مگر اسما کو معلوم نہیں تھا کہ اس کا شوہر القاعدہ کا رکن ہے۔ جب اسے اس کا علم ہوا تو اس نے خلع لینے کی کوششیں شروع کردیں۔ اسما العمیسی کی زندگی اس وقت اور کھٹن ہوگئی جب فروری 2016 کو القاعدہ کمانڈر اسے لے کر حضر موت کے پہاڑوں پر چلا گیا اور اس پر ظلم میں بھی اضافہ کر دیا گیا۔پانچ اکتوبر 2016 کو حوثی ملیشیا نے اسما العمیسی کو المکلا سے صنعا جاتے ہوئے حراست میں لے لیا۔

وہ اپنے والد اور دو پڑوسیوں کے ہمراہ صنعا جا رہی تھیں۔ حوثیوں نے بغیر تحقیق کے ان پر جاسوسی سیل قائم کرنے کا الزام تھوپ دیا۔گرفتاری اور جیل میں ڈالا جانا اسما کے لیے ایک نئی آزمائش تھی۔ اسے دیگر افراد کے ساتھ حراستی مراکز میں ڈال دیا گیا جہاں ان پر انسانیت سوز تشدد کا سلسلہ شروع ہوا۔ غیرانسانی سلوک کا سامنا کرنے کے ساتھ ان کے خلاف ایک نام نہاد فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا۔

دوران حراست اسما العمیسی کو جسمانی اور ذہنی تشدد کے ساتھ مسلسل بیدار رکھا جاتا۔ اس کے والد کو اس کے سامنے اذیتیں دی گئیں۔ دیگر افراد کو بھی اس کے سامنے تشدد کیا نشانہ بنایا جاتا اور اسما سے کہا جاتا کہ وہ انہیں تشدد کا نشانہ بنتا دیکھے۔ اس کے والد دوسرے اقارب کو چھت کے ساتھ الٹا لٹکا کر بدترین طریقے سے مارا پیٹا جاتا۔چھبیس جون 2017 کو اس کے والد کو بھاری رقم کے عوض رہا کر دیا گیا۔

جیل انتظامیہ نے متعدد بار اسما سے بھی کو بھی 30 ملین یمنی ریال کے بدلے میں رہا کرنے کی یقین دہانی کرائی مگر اسے رہا نہیں کیا گیا۔تیس جنوری کو حوثیوں کی ایک عدالت سے اچانک فیصلہ جاری ہوا جس میں اسما، سعید محفوظ الرویشد اور احمد عبداللہ کو سزائے موت اور اسما کے والد کو جاسوسی کے الزام میں پندرہ سال قید کی سزا سنائی گئی۔سزا پر انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی نے سخت احتجاج کیا ہے اور تمام محرویسن کی فوری اور غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ حوثی عدالت سے اسما کو نہ صرف سزائے موت سنائی گئی ہے بلکہ انہیں ایک سو کوڑے مارنے کی سزا بھی سنائی جا چکی ہے۔