پاکستان خیرات یا بخشش میں نہیں ملا اس کیلئے بہت قربانیاں دی ہیں‘ چیف جسٹس

ووٹ کی عزت یہ ہے کہ قوم کی خدمت کریں ‘ کاش قائد اعظم اور علامہ اقبال پاکستان بننے کے کچھ عرصہ تک زندہ رہتے تو ملک کا آج یہ حال نہیں ہوتا‘ میں اور میرے 17جج کوئی مارشل لاء نہیں لگانے دیں گے ‘ جوڈیشل مارشل لاء کا آئین میں کوئی وجود نہیں ‘ لوگوں کو حقو ق نہیں ملیں گے تو وہ عدالتوں میں آئیں گے ‘ میرے پاس اپنے ججز بڑھانے کا اختیار نہیں ہے ‘ مجھے وسائل دیدیں ‘ میں بنیادی حقوق کی فراہمی کیلئے کام کر رہا ہوں تو کیا یہ غلط ہی ‘ ایک جج کو ایک کیس نمٹانے کیلئے صرف 3 منٹ ملتے ہیں‘ ادارے کام نہیں کر رہے جسکے باعث عدلیہ پر بوجھ بڑھ رہا ہے ‘ عدلیہ مکمل آزاد ہے ‘ عوام کو ان کے حقوق دلا کر جائوں گا چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کا ایوان اقبال میں تقریب سے خطاب

ہفتہ 21 اپریل 2018 19:10

پاکستان خیرات یا بخشش میں نہیں ملا اس کیلئے بہت قربانیاں دی ہیں‘ چیف ..
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 21 اپریل2018ء) چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ووٹ کی عزت یہ ہے کہ قوم کی خدمت کریں ‘ کاش قائد اعظم اور علامہ اقبال پاکستان بننے کے کچھ عرصہ تک زندہ رہتے تو ملک کا آج یہ حال نہیں ہوتا‘ میں اور میرے 17جج کوئی مارشل لاء نہیں لگانے دیں گے ‘ جوڈیشل مارشل لاء کا آئین میں کوئی وجود نہیں ‘ لوگوں کو حقو ق نہیں ملیں گے تو وہ عدالتوں میں آئیں گے ‘ میرے پاس اپنے ججز بڑھانے کا اختیار نہیں ہے ‘ مجھے وسائل دیدیں ‘ میں بنیادی حقوق کی فراہمی کیلئے کام کر رہا ہوں تو کیا یہ غلط ہی ‘ ایک جج کو ایک کیس نمٹانے کیلئے صرف 3 منٹ ملتے ہیں‘ ادارے اپنا کام نہیں کر رہے جسکے باعث عدلیہ پر بوجھ بڑھ رہا ہے ‘ عدلیہ مکمل آزاد ہے ‘ عوام کو ان کے حقوق دلا کر جائوں گا۔

(جاری ہے)

وہ ہفتہ کو ایوان اقبال میں تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک مسلسل جدوجہد کانتیجہ ہے ‘ اقبال اور قائد اعظم نے پاکستان بنایا ‘ کاش قائد اعظم اور اقبال ملک کے شروع میں کچھ وقت ہمارے ساتھ گزار لیتے تو آج پاکستان کا یہ حال نہ ہوتا۔ کئی خاندان ہجرت کر کے پاکستان آئے جن میں ہزاروں لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ پاکستان ہمیں خیرات یا تحفے میں نہیں ملا اس کے پیچھے طویل جدوجہد اور قربانی ہے۔

بدنصیب ہیں وہ قومیں جن کا اپنا ملک نہیں ہوتا ہم خوش نصیب ہیں کہ پاکستان ہمیں ملا تحفے کی شکل میں۔ اس ملک کی اتنی بے قدری کی جا رہی ہے ذاتی خواہشات کی خاطر اس ملک کی بے قدری کی جا رہی ہے۔ تعلیم حاصل کرنے والی قومیں ہی ترقی کرتی ہیں۔ ہم نے پاکستان کے تصور کو چکنا چور کر دیا ہے اس کی تین وجوہات ہیں سب سے پہلے تعلیم کی کمی ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کی 80 کنال زمین بجلی گھر کیلئے دیدی گئی۔

جامعات بنانے کی بجائے ختم کیا جا رہا ہے۔ جب تک ہم ایک بستہ ایک سکول اور ایک تعلیم نہیں ہو گی تو ملک ترقی نہیں کرے گا۔ ایک تعلیم فراہم کرنا ریاست کا کام ہے۔ میں ایک سوچ پر آیا ہوں کہ میرے بچوں کی تعلیم کی حق ان کو دیا جائے تاکہ یہ ملککے فائدہ مند شہری بن سکیں۔ ہونہار بچوں کے پاس تعلیم حاصل کرنے کے مواقع اور ذرائع میسر نہیں ہیں۔ اس کی ذمہ دار حکومت ہے۔

میں اپنے فرائض انجام دینے کیلئے تیار ہوں۔ اگر میں نا کام ہو گیا تو ساری زندگی خود کو معاف نہیں کر سکوں گا۔ بلوچستان میں 6 ہزار سکولوں میں لیٹرین اور پانی موجود نہیں ہے۔ باقی صوبوں کا بھی یہی حال ہے۔ امتیازی کلچر کو ملک سے ختم کرنا ہو گا۔ جو والدین اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دے رہے وہ قوم کے مجرم ہیں ۔ تعلیم اس قوم کی بقاء کیلئے ضروری ہے۔

زندگی نایاب ہے اگر زندگی نہ ہوتی تو زمین پر تو اس کی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔ آپ لوگ اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھائیں۔ زندگی صحت کے ساتھ جڑی ہے۔ جہاں صحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں ہسپتالوں میں لیڈی ڈاکٹرز نہیں ہیں۔ جو دوائیاں مفت دی جانی چاہئیں وہ مہنگی فروخت کی جا رہی ہیں۔ میں بنیادی حقوق کا ذکر کر رہا ہوں تو کیا یہ غلط ہے۔ ووٹ کی عزت یہ ہے کہ آپ لوگوں کو عزت دیں اور بنیادی حقوق فراہم کریں۔

عدلیہ مکمل طور پر آزاد ہے اور ہم کوئی دبائو قبول نہیں کریں گے۔ مارشل لاء کس نے لگاناہے اس کو کس نے لگانے دینا ہے۔ اس ملک میں جمہوریت ہے اور رہے گی۔ جس دن مارشل لاء آئے گا میں نہیں ہوں گا۔ ہمارے دلوں میں جوڈیشل لاء کا تصور بھی نہیں ہے۔ یہ بعض لوگوں کے ذہنوں کی اختراع ہے۔ ہم آپ کے حقوق کیلئے لڑیں گے جس دن ہم سمجھیں گے کہ قوم ہمارے ساتھ نہیں ہے توہم یہ نوکری سے استعفیٰ دیدیں گے۔

پہلے اپنے گریبانوں میں جھانکیں پھر دوسروں کو دیکھیں۔ میں اپنی عدلیہ کی نگرانی بھی کر رہا ہوں میں وضاحت دینے نہیں آیا ہوں لیکن اب لاقانونیت بہت بڑھ گئی ہے کیا صرف عدلیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ انصاف کرے۔ یہ سیکرٹری اور حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ ایک جج کے پاس 160کیسز ہیں نچلی عدالتوں کے پاس ۔ انہوں نے کہا کہ ایک کیس کیلئے تین منٹ کا وقت بنتا ہے کیا تین منٹ میں کیس سنا جا سکتا ہی ۔

انصاف کمپیوٹر سے نہیں عقل سے ہونا ہے۔ قانون کو جدید تقاضوں کے مطابق اپڈیٹ نہیں کیا گیا تو آپ پھر کیا امید کریں گے۔ میں عوامی چیف جسٹس نہیں بلکہ ادنیٰ انسان ہوں۔ عورتیں سارا دن سیکرٹریز کے دفتروں کے چکر لگا لگا کر تھک جاتی ہیں۔ یہ ہے قانون کا غلط استعمال جس کی وجہ سے لاقانونیت بڑھ رہی ہے۔ جامعات میں وی سیز بغیر میرٹ کے لگائے جاتے ہیں۔ اگر ہر کوئی اپنا کام کرے تو عدالتوں پر بوجھ نہ آئے۔ عدالتوں پر اتنا بوجھ آ گیا ہے کیونکہ سرکاری دفاتر اپنا کام نہیں کر رہے۔ میں اپنی تنخواہ بھی چھوڑنے کیلئے تیار ہوں اس سے زیادہ کیا کروں اپنی قوم کیلئے۔ …