کراچی میں بجلی کا سنگین بحران،

وفاق اور صوبائی حکومت میں تکرارجاری شہریوں بجلی کے بحران کے سبب طویل اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ اور شدید مشکلات کاسامنا وفاقی وزیر توانائی نے حکومت سندھ کو خط لکھ کر کے الیکٹرک کے واجبات کی ادائیگی کروانے کا مطالبہ کردیا

ہفتہ 21 اپریل 2018 16:11

کراچی  میں بجلی کا سنگین بحران،
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 21 اپریل2018ء) کراچی میں بجلی کے بحران الیکشن سے پہلے ہی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مابین تنازع کی شکل اختیار کر گیااور ان میں تکرارجاری ہے جبکہ کراچی کے شہری بجلی کے بحران کے سبب طویل اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ بھگت رہے ہیں، ایسے میں وفاقی حکومت نے کے الیکٹرک اور سوئی سدرن گیس کمپنی (ایس ایس جی سی)کے درمیان گیس فراہمی کے تنازع پر ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے الیکٹرک کی بلیک میلنگ کا شکار نہیں ہوگی۔

وفاقی وزیر توانائی اویس احمد لغاری نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ جب تک کی-الیکٹرک، ایس ایس جی سی کے 80 ارب کے واجبات ادا کرنے کے لیے کوئی لائحہ عمل تشکیل نہیں دے دیتی، اس وقت تک کی-الیکٹرک کو ادائیگی کے بغیر مزید گیس کی فراہمی نہیں کی جائے گی۔

(جاری ہے)

انہوں نے وزیراعلی سندھ کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ بحران کو سیاسی شکل دے رہے ہیں، واضح رہے کہ وزیراعلی سندھ نے بجلی بحران کے حل کے لیے صوبے کی تمام جماعتوں کو مل کر اسلام آباد میں وزیراعظم ہائوس کے سامنے دھرنا دینے کا کہا تھا۔

وفاقی وزیر نے وزیراعلیٰ سندھ کو مشورہ دیا تھا کہ وہ بااثر افراد سے بجلی کی چوری رکوائیں، تاکہ کراچی کے شہری سکھ کا سانس لے سکیں۔دوسری جانب وزیراعلی سندھ نے دھمکی دی کہ وہ بجلی بحران کے معاملے کو اگلے ہفتے ہونے والے مشترکہ مفادات کونسل اور قومی معاشی کونسل کے اجلاس میں بھرپور طریقے سے اٹھائیں گے، اور اس کے علاوہ کسی اور معاملے پر گفتگو میں شریک نہیں ہوں گے۔

مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ سوئی سدرن گیس کمپنی میں 70 فیصد جبکہ کی-الیکٹرک میں 25 فیصد شیئرز وفاقی حکومت کے ہیں، اور سندھ حکومت کو اعتماد میں لیے بغیر کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن (کے ای ایس سی) کی نجکاری کی گئی، جبکہ وفاقی حکومت نے کراچی واٹر بورڈ کے واجبات کی ادائیگی کی ضمانت بھی لی تھی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ کی-الیکٹرک اور سوئی سدرن کے مابین جاری تنازع کو حل کرنا وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کا امن متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

وزیراعلی سندھ کا کہنا تھا ایسا لگتا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے سندھ میں انتخابات کی شکست کا بدلہ، سندھ کے عوام سے لینے کی ٹھان لی، اور اس وقت حیدرآباد اور سکھر کے شہری 16 سے 20 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ برداشت کر رہے ہیں۔کی-الیکٹرک، ایس ایس جی سی اور پیٹرولیم کے اعلی افسران سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اویس احمد خان لغاری کا کہنا تھا کہ دونوں فریقین کے درمیان جاری تنازع پر تفصیلی بات چیت کی گئی۔

وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ عام صارف کی 2 ماہ کی ادائیگی نہ ہونے کے سبب ان کے کنکشن منقطع کردیا جاتا ہے، تو ایسا کس طرح ممکن ہے کہ اتنی بڑی رقم کی ادائیگی کے بغیر کی-الیکٹرک کو گیس کی فراہمی جاری رہے، قانون کا اطلاق سب پر یکساں ہونا چاہیے۔کی-الیکٹرک کا موقف بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت اور کراچی واٹر بورڈ، کی-الیکٹرک کے نادہندگان ہیں، لیکن ان واجبات کی ادائیگی صوبائی معاملہ ہے اور اسے صوبائی سطح پر ہی حل ہونا چاہیے۔

اویس احمد لغاری کا کہنا تھا کہ ملاقات میں سندھ حکومت، وزارت پیٹرولیم، سوئی سدرن گیس کمپنی اور کی-الیکٹرک کے اعلی عہدایداروں نے شرکت کی، جبکہ وزارتِ خزانہ کو اس معاملے کے حل کے لیے فریقین میں معاہدہ کرانے کی ہدایت کی گئی تھی۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ کی-الیکٹرک، ایس ایس جی سی کے 13 ارب 7 کروڑ کی نادہندہ ہے، جبکہ پالیسی کے مطابق 60 سے 70 ارب روپے لیٹ سرچارج بھی واجب الادا ہیں، یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ عوام کا پیسہ ہے اور اس معاملے کو عوام کی امنگوں کے مطابق حل ہونا چاہیے، گیس کی فراہمی معاہدے کے تحت ہی ہوگی۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ہر صارف گیس کے تجارتی معاہدے کے تحت ہی گیس حاصل کرتا ہے جس میں غریب صارفین بھی شامل ہیں، اسی طرح کی-الیکٹرک بھی اس سے بالاتر نہیں۔انہوں نے بتایا کہ کی-الیکٹرک کو بغیر کسی سمجھوتے کے نیشنل گرڈ اسٹیشن سے 650 میگا واٹ بجلی کی فراہمی جاری ہے، تاکہ کراچی کے لوگوں کی مشکلات کچھ کم کی جاسکیں۔س ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کو توقع تھی کہ حکومت کی جانب سے عجلت میں بلائی گئی اس میٹنگ میں مسئلے کا کوئی حل نکل آئے گا، لیکن کی-الیکٹرک کی جانب سے تنازع کو کوئی اور ہی شکل دے دی گئی، اور متوقع نتائج حاصل نہیں ہوسکے۔

انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ وفاقی حکومت کسی قسم کی بلیک میلنگ کا شکار نہیں ہوگی، نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی(نیپرا) ایک خود مختار ادارہ ہے، یہ معاملہ ان کے دائرہ کار سے باہر تھا اس وجہ سے اس کے چئیرمین اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔ وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے حکومت سندھ کو خط لکھ کر کے الیکٹرک کے واجبات کی ادائیگی کروانے کا بھی مطالبہ کردیا ۔

کراچی میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے معاملے پر وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ کو خط لکھا ہے جس میں انہوںنے کہا کہ کراچی واٹر بورڈ کے ذمہ کے الیکٹرک کے 32 ارب روپے ادا کیے جائیں، کے الیکٹرک کو رقم ملی تو وہ سوئی سدرن کے ساتھ اپنا مسئلہ حل کر سکتی ہے، واٹر بورڈ سے کے الیکٹرک کو رقم دلوانے میں وزیر اعلی اپنا کردار ادا کریں۔

اویس لغاری نے کہا کہ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی(نیپرا)کے مطابق کے الیکٹرک اپنے بند اور پلانٹس تیل پر چلا سکتا تھا، نیپرا نے اپنی حالیہ رپورٹ میں یہ بھی کہا ہے کہ کراچی میں بجلی بحران کی وجہ کے الیکٹرک کی بدانتظامی اور نااہلی ہے۔ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ حکومتی ارکان نے کی-الیکٹرک کے چیف ایگزیکٹو طیب ترین سے شکایت کی کہ وہ معاملات کو حل کرنے کے بجائے عدالت میں لے جاتے ہیں، جبکہ بجلی فراہمی اور تقسیم کا نظام بہتر کیے بغیر منافع کما رہے ہیں۔

ملاقات میں نیشنل گرڈ اسٹیشن کی جانب سے 650 میگاواٹ بجلی فراہمی کے واجب الادا 30 ارب روپے بھی زیر بحث آئے۔کی-الیکٹرک کے چیف ایگزیکٹو طیب ترین نے میٹنگ کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کی-الیکٹرک 6 ارب روپے کے زر ضمانت اور 13 ارب 7 کڑوڑ روپے کی ادئیگی کے لیے تیار ہے، لیکن سوئی سدرن کمپنی گیس فراہمی کا معاہدہ کرنے کے لیے تیار نہیں۔کی-الیکٹرک کی ترجمان سعدیہ ڈاڈا نے بتایا کہ ایس ایس جی سی کی جانب سے 60 ارب روپے کے سرچارج کی ادئیگی پر اصرار کیا جارہا ہے۔