پاکستان کا امریکی ہتھیاروں پر انحصار کم ،

چین نے جگہ لے لی ہے،جاپانی اخبار اوباما دورمیں کانگریس کی جانب سے آٹھ ایف سولہ طیاروں کی فروخت روکنے کے بعد پاکستان نے منہ موڑ لیا،رپورٹ

جمعرات 19 اپریل 2018 15:07

ْواشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 اپریل2018ء) جاپان کے چوٹی کے اخبار نے کہاہے کہ پاکستان کا آہستہ آہستہ امریکی ہتھیاروں پر سے انحصار کم ہورہا ہے اور اس خلا کو چین پٴْر کر رہا جس کا اثر براہِ راست خطے کی سیاست پر پڑے گا۔جاپان کی اخبار نے اپنی رپورٹ میں کہاکہ امریکی ہتھیاروں پر سے پاکستان کا انحصار کم ہونا اوباما انتظامیہ کے دورِ حکومت کے آخری کے دنوں میں شروع ہوا جب کانگریس نے پاکستان کو آٹھ ایف سولہ طیاروں کی فروخت روک دی تھی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ اوباما انتظامیہ کی جانب سے کیے والے اس فیصلے کو پاکستان میں اس ڈر کے تناظر میں دیکھا گیا کہ اب امریکا پر انحصار نہیں کیا جاسکتا، جو جدید ہتھیاروں میں پاکستان کا اہم ترین ذریعہ ہے۔

(جاری ہے)

پاکستان نے ایف سولہ کے بجائے چین کے اشتراک سے تیار ہونے والے جے ایف17 تھنڈر کی جانب دیکھنا شروع کردیا جو اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے امریکی ساختہ طیارے کے ہی ہم پلہ ہے۔

امریکی پابندی نے پاکستان کو مجبور کیا کہ وہ اپنی فوجی طاقت کو امریکی ہتھیاروں سے دور کرتے ہوئے چین کے ہتھیاروں یا پھر ملکی سطح پر چین کے اشتراک سے بنائے گئے ہتھیاروں پر انحصار کرے۔اخبار نے اپنی رپورٹ میں اسٹاکلم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے اعداد و شمار کا حوالہ دیا، جس میں کہا گیا کہ 2010 سے پاکستان میں امریکی ہتھیاروں کی برآمدات ایک ارب ڈالر سے کم ہو کر 2 کروڑ 10 لاکھ ڈالر تک آگئی جبکہ دوسری جانب چینی ہتھیاروں کی برآمدات 74 کروڑ 70 لاکھ ڈالر سے کم ہوکر 51 کروڑ 40 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئیں تاہم یہ اعداد و شمار چین کو پاکستان کے لیے سب سے بڑا ہتھیاروں کا برآمد کنندہ بناتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ نئی دہلی اور واشنگٹن کے درمیان ہونے والی قربت میں اضافے کی وجہ سے پاکستان کے امریکا پر شکوک و شبہات بڑھ رہے تھے جو 2011 میں القاعدہ رہنما اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد مزید بڑھ گئے اور اس واقعے نے اسلام آباد اور واشنگٹن کے تعلقات کو مزید خراب کیا۔پاک امریکا تعلقات کو اس وقت مزید جھٹکا لگا جب امریکا کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں برس جنوری میں پاکستان کی 2 ارب ڈالر کی فوجی امداد پر پابندی عائد کردی تھی۔

اس امریکی اقدام کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا کہ واشنگٹن کا ماننا ہے کہ اسلام آباد اب افغانستان میں امریکا کی حمایت میں اتنا ذمہ دار نہیں رہا جتنا پہلے تھا۔سیاسی تجزیہ کار ہیرسن ایکنس نے بتایا کہ ڈونلڈ ٹرمپ سے فیصلے نے اسلام آباد کو بیجنگ سے ہتھیار خریدنے پر مجبور کردیا۔رپورٹ کے مطابق پاکستان گزشتہ کئی دہائیوں سے بیجنگ سے ہتھیار خریدتا رہا ہے جس کا آغاز 1965 میں ہونے والی پاک بھارت جنگ کے تناظر میں امریکا کی جانب سے ہتھیاروں کی خریداری پر عائد پابندی کے بعد ہوا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ اس پابندی کے بعد سے جب بھی اسلام ا?باد اور واشنگٹن کے درمیان سفارتی تعلقات خراب ہوئے تو پاکستان نے چینی ہتھیاروں کی خریداری میں اضافہ کیا۔چین نے 1990 اور 1980 کی دہائی میں پاکستان کو جوہری ہتھیار بنانے کے لیے سامان اور تکنیکی صلاحیت فراہم کی، جبکہ اس کے علاوہ چین نے 1990 کی ہی دہائی میں پاکستان کو 30 سے زائد ایم-11 بیلسٹک میزائلوں کی فروخت سے امریکا کو چونکا دیا جو جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

ایک دفاعی تجزیہ نگار جان گریویٹ کا کہنا تھا کہ گزشتہ دہائی میں چین نے پاکستان کے ساتھ شراکت داری کو وسیع پیمانے تک بڑھا دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ چین نے پاکستان کو 2010 کے بعد سے ای100 راکٹ لاؤنچرز اور ایچ کیو16 ایئر ڈیفنس میزائل سسٹم فراہم کیے، جبکہ اس کے ساتھ ساتھ وی ٹی-4 ٹینک بھر فراہم کیے گئے ہیں جن کے تجربات ابھی پاکستان میں جاری ہیں۔

رپورٹ میں ان تین ہتھیاروں کا بھی ذکر کیا گیا جو چین کی نئی صلاحیت کی ضامن ہیں اور جس نے جنوبی ایشیا میں امریکی اثرو رسوخ کے لیے خطرہ کھڑا کردیا۔ان تین ہتھیاروں میں پہلا ہتھیار چین کے اشتراک سے تیار کردہ والا جے ایف 17 تھنڈر طیارہ شامل ہے، جس کی قیمت امریکی ایف 16 سے انتہائی کم ہے، تاہم چین نے اس کے ڈیزائن پاکستان کو فراہم کر دیے ہیں جس کے بعد اسلام آباد ان ہتھیاروں کو نہ صرف اپنے ملک میں بنا رہا ہے بلکہ ان کی فروخت بھی کر رہا ہے۔

دوسرا ہتھیار پاکستان کی جانب سے پاک افغان سرحد پر دہشت گردوں کے خلاف استعمال ہونے والا ڈرون طیارہ ہے، جو چینی ڈرون طیارے سے مشابہت رکھتا ہے۔اس کے علاوہ تیسرا ہتھیار وہ 8 آبدوزیں ہیں جو چین نے پاکستان کو ایف16 ہتھیاروں کی فروخت کے معاہدے کی منسوخی کے بعد 5 ارب ڈالر میں فروخت کیں تھیں، اور یہ پاکستان کی تاریخ میں فوجی ہتھیاروں کی درآمد کی اب تک کی سب سے بڑی سب ڈیل تھی۔