انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے فوجی حل نہیں وسیع حکمت عملی درکار ہے ،بلاول بھٹو

اس وقت پاکستان کی سیاست کا ماحول انتہا پسندی، بے جا طرف داری اور نفرت پر مبنی سیاست سے بھر گیا ہے ، ریاست کو چیلنج کرنے والوں اور اس کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں سے عسکری طور پر نمٹنا چاہیے، پرویز مشرف نے میری والدہ کو دھمکی دی تھی اور اس حوالے سے گواہ بھی ہیں ، پرویز مشرف اپنے دفاع کا دعویٰ کرتے ہیں تو واپس آ کر عدالت میں الزامات کا سامنا کیوں نہیں کرتی ،' بے نظیر بھٹو قتل کے مقدمے میں تاخیر سے فیصلہ انصاف کا تمسخر تھا، مجھے اپنے سیاسی کیریئر کے بارے میںکوئی تشویش یا پریشانی نہیں ، ابھی 29سال کا ہوں ،پیپلزپارٹی نے خاندانی سیاست کا راستہ خود اپنی مرضی سے منتخب نہیں کیا ، قتل نہ کیا جاتا تو نانا سیاست دان اور والدہ دفتر خارجہ میں ہوتیں، پارٹی میں میرے والد فیصلے نہیں دیتے بلکہ سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی پالیسی بناتی ہے ، ہم اس پالیسی کی تعمیل کرتے ہیں چیئرمین پیپلزپارٹی کا برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو

جمعرات 19 اپریل 2018 12:13

انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے فوجی حل نہیں وسیع حکمت عملی درکار ہے ،بلاول ..
کراچی /لندن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 19 اپریل2018ء) حزب اختلاف کی بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پاکستان انتہا پسندی کے خلاف صرف فوجی حل پر توجہ دے رہا ہے لیکن اس کے خاتمے کے لیے وسیع حکمتِ عملی کی ضرورت ہے، ریاست کو چیلنج کرنے والوں اور اس کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں سے عسکری طور پر نمٹنا چاہیے، پرویز مشرف نے میری والدہ کو دھمکی دی تھی اور اس حوالے سے گواہ بھی ہیں جنھیں عدالت میں پیش کیا گیا، پرویز مشرف کہتے ہیں کہ وہ اپنا دفاع کر سکتے ہیں لیکن وہ واپس آ کر عدالت میں الزامات کا سامنا کیوں نہیں کرتی ،'قانون کے تحت بے نظیر بھٹو قتل کے مقدمے کا دو ہفتوں میں فیصلہ ہونا چاہیے تھا لیکن اس کو دس برس لگے اور سچ ہے کہ یہ انصاف کا تمسخر تھا، مجھے اپنے سیاسی کیریئر کے بارے میںکوئی تشویش یا پریشانی نہیں ، ابھی 29سال کا ہوں ،پیپلزپارٹی نے خاندانی سیاست کا راستہ خود اپنی مرضی سے منتخب نہیں کیا ، میرے نانا اور والدہ کو قتل نہ کیا جاتا تو میرے نانا سیاست دان ہوتے اور والدہ دفتر خارجہ میں ہوتیں، پاکستان میں کسی حد تک تمام سیاسی جماعتوں کا خاندانی سیاست پر انحصار ہے جب کہ میں اور میرے والد فیصلے نہیں دیتے بلکہ ہماری سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی ہے جو کہ جماعت کی پالیسی بناتی ہے اور تنقید کرتی ہے، ہم اس پالیسی کی تعمیل کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو دیئے گئے انٹرویو میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ریاست کو چیلنج کرنے والوں اور اس کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں سے عسکری طور پر نمٹنا چاہیے لیکن دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے وسیع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔طالبان سے مذاکرات کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں بلاول نے کہا کہ 'ہمیں مجموعی طور پر ایسی اپروچ کی ضرورت ہے جس میں صرف توجہ دہشت گردی پر نہ ہو بلکہ انتہا پسندی کے خاتمے پر بھی توجہ ہو۔

انھوں نے کہا کہ انتہا پسندی ختم کرنے کے لیے تعلیم، نصاب، پولیس اور عدلیہ میں اصلاحات کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ سب کو مساوی معاشی مواقعے حاصل ہوں اور یہ ایک جامع پیکج ہے جو پیپلز پارٹی دے سکتی ہے۔ اپنی والدہ بینظیر بھٹو کے قتل کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ پرویز مشرف نے میری والدہ کو دھمکی دی تھی اور اس حوالے سے گواہ بھی ہیں جنھیں عدالت میں پیش کیا گیا۔

بلاول بھٹو نے سوال کیا کہ پرویز مشرف نے کہا کہ وہ اپنا دفاع کر سکتے ہیں لیکن وہ واپس آ کر عدالت میں الزامات کا سامنا کیوں نہیں کرتی ۔بلاول نے کہا کہ 'صرف میری والدہ کے قتل کے کیس میں ہی انھیں ملزم نہیں ٹھہرایا گیا بلکہ ان پر بلوچستان کے سابق وزیراعلی پر بمباری اور قتل کا الزام ہے، غداری کا الزام بھی ہے لیکن وہ کسی مقدمے میں بھی پیش نہیں ہو رہے۔

پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں بینظیر قتل کیس کی تحقیقات کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں بلاول نے کہا کہ اسی دوران ملکی تاریخ میں پہلی بار پاکستان اقوام متحدہ کے پاس تحقیقات کے لیے گیا۔ انھوں نے کہا کہ 'ہمارا ملزمان کے خلاف کیس بہت مضبوط ہے بلکہ بی بی سی کی اپنی تحقیقات میں بھی یہی کہا گیا۔ حقائق یہ ہیں کہ اسی کیس میں ڈی این اے شواہد کو نظر انداز کیا گیا اور یہ بہت سنگین الزام ہے۔

ہماری حکومت ختم ہونے کے بعد مشرف کے خلاف مضبوط کیس کے پراسیکیوٹر کو قتل کر دیا گیا جبکہ کیس کے دوران سات بار جج تبدیل ہوئے۔بلاول نے کہا کہ 'قانون کے تحت اس مقدمے کا دو ہفتوں میں فیصلہ ہونا چاہیے تھا لیکن اس کو دس برس لگے اور سچ ہے کہ یہ انصاف کا تمسخر تھا۔جب ان سے پوچھا گیا کہ اقوام متحدہ کی تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ نے کہا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کے علاوہ اس وقت چند حکومتی ورزا نے انٹرویو دینے سے انکار کیا تھا تو اس سوال کے جواب میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ'میں اس سے انکار نہیں کروں گا۔

حکومتی وزرا تھے اور ہم ان انفرادی شخصیات کو پیش کرنے میں ناکام رہے جن کو وہ چاہتے تھے کہ پیش کیا جائے لیکن اس کے ساتھ رپورٹ میں یہ کہا گیا تھا کہ انفرادی شخصیات تک رسائی حاصل نہ ہونے سے اس رپورٹ تیار کرنے کی اہلیت پر اثر نہیں پڑا ہے۔ پیپلز پارٹی کو ذاتی جاگیر کے طور پر چلانے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انھوں نے اسے الزام قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں کسی حد تک تمام سیاسی جماعتوں کا خاندانی سیاست پر انحصار ہے۔

انھوں نے کہا کہ 'میں اس کی خوبیوں اور نقائص پر بحث نہیں کروں گا لیکن پاکستان پیپلز پارٹی نے خاندانی سیاست کا راستہ خود اپنی مرضی سے منتخب نہیں کیا، میرے نانا اور والدہ کو قتل نہ کیا جاتا تو، میرے نانا سیاست دان ہوتے اور میری والدہ دفتر خارجہ میں ہوتیں اور میں اب بھی طالب علم ہوتا۔بلاول نے کہا کہ 'پاکستان میں دوسری سیاسی جماعتیں جو خاندانی سیاست پر انحصار کرتی ہیں وہ قتل کی تکلیف سے نہیں گزری ہیں لیکن پھر بھی بھائی، بہنیں اور دیگر شو چلا رہے ہیں۔

پاکستان کا وزیراعظم بننے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب بلاول نے کہا کہ وہ اس بات پر قائل ہیں کہ انھیں اپنے نظریات اور مقاصد حاصل کرنے ہیں اور یہ وزیراعظم بننے کی خواہش نہیں ہے۔انھوں نے کہا پاکستان کی عوام ایسے ترقی پسند ملک کے مستحق ہیں جہاں انھیں بلاتفریق مساوی حقوق حاصل ہوں۔جرمنی ٹی وی ڈی ڈبلیو کی رپورٹ کے حوالے سے ایک سوال پوچھا گیا کہ پاکستان میں بہت سارے لوگوں کے مطابق بلاول بھٹو کا سیاسی مستقبل مایوس کن ہے کیونکہ بینظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی کا اب وجود نہیں اور اس کا وجود 2007 میں ہی ختم ہو گیا تھا ۔

اس پر بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ 'ظاہر ہے کہ میری والدہ بینظیر بھٹو کے قتل نے نہ صرف پیپلز پارٹی بلکہ پاکستان کی اجتماعی سیاست میں بھی ایک بڑا خلا چھوڑا ہے۔ نہ صرف بینظیر کا قتل بلکہ اس وقت پاکستان کی سیاست کا ماحول انتہا پسندی، بے جا طرف داری اور نفرت پر مبنی سیاست سے بھر گیا ہے اور میں نے اس سرگرمی میں حصہ لینے سے انکار کیا ہے۔

اس سوال پر کہ پیپلز پارٹی کی سابق رہنما ناہید خان نے الزام لگایا ہے کہ اس وقت پیپلز پارٹی کی قیادت کو صرف اقتدار سے غرض ہے اور اس کے اپنے نظریات کو ترک کر دیا ہے، بلاول نے کہا کہ 'میں ان سے اتفاق نہیں کروں گا۔ وہ ہماری مخالف ہیں اور ہمارے خلاف الیکشن لڑا اور ان کو تنقید کا حق حاصل ہے تاہم پیپلز پارٹی اب ابھی پوری طرح اپنے اسی نصب العین پر قائم ہے اور میں جانتا ہوں کہ میں اپنی والدہ کے آئیڈیلز پر قائم ہوں اور ان کے لیے لڑوں گا اور ان کے لیے جان بھی دوں گا۔

پیپلز پارٹی میں آصف علی زرداری کے اثر و رسوخ کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو نے کہا کہ جمہوری جماعتوں میں آپ اکٹھے کام کرتے ہیں اور اتفاق رائے سے فیصلے کرتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ 'میں اور میرے والد فیصلے نہیں دیتے بلکہ ہماری سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی ہے جو کہ جماعت کی پالیسی بناتی ہے اور تنقید کرتی ہے اور ہم اس پالیسی کی تعمیل کرتے ہیں۔بلاول نے کہا کہ 'جہاں تک میرے سیاسی کریئر کے بارے میں تشویش کی بات ہے تو مجھے کوئی جلدی نہیں اور کوئی پریشانی نہیں، میں 29 برس کا ہوں اور میں اس عمل میں طویل مدت کے لیے ہوں۔