پشاور،صوبہ خیبر پختونخوا گذشتہ 4سال دہائیوں سے دہشت گردی اور انتہاء پسندی کا شکار رہا ہے،زاہداللہ شنواری

فرنٹ لائن اسٹیٹ کا فرنٹ لائن صوبہ ہونے کے ناطے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں اس صوبے کے عوام اور بزنس کمیونٹی نے دی ہیں اور معیشت کو اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے آل پارٹیز کانفرنس میں تمام سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق ہوئی ہیں کہ صوبہ خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقہ جات سے غربت اور بے روزگاری کے خاتمے کیلئے انڈسٹریلائزیشن کو فروغ دیا جائیگا، صدر سرحد چیمبر آف کامرس کا پریس کانفرنس سے خطاب

بدھ 18 اپریل 2018 22:29

پشاور،صوبہ خیبر پختونخوا گذشتہ 4سال دہائیوں سے دہشت گردی اور انتہاء ..
پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 18 اپریل2018ء) سرحد چیمبر آف کامرس کے صدر زاہداللہ شنواری نے کہا ہے کہ سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے 29 مارچ 2018ء کو صوبائی حقوق کے تحفظ ،ْ معیشت کی بحالی کی راہ میں حائل ر کاوٹوں ،ْ صنعت و تجارت کے شعبے کی پسماندگی ،ْ ٹیکس نظام میں پائی جانیوالی خامیوں اور دیگر اہم معاملات میں صوبہ خیبر پختونخوا کو نظر انداز کرنے کے حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی تھی اس آل پارٹیز کانفرنس میں ہم نے ایک Charter of Economy تیار کیا جس کی تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر حمایت کا اعلان بھی کیا اور اس چارٹر آف اکانومی پر تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین نے دستخط بھی کئے ۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے سرحد چیمبر آف کامرس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہاکہ صوبہ خیبر پختونخوا گذشتہ 4سال دہائیوں سے دہشت گردی اور انتہاء پسندی کا شکار رہا ہے اور فرنٹ لائن اسٹیٹ کا فرنٹ لائن صوبہ ہونے کے ناطے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں اس صوبے کے عوام اور بزنس کمیونٹی نے دی ہیں اور معیشت کو اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے ۔

اسی وجہ سے اس صوبے سے سرمایہ کاری کی منتقلی اور Brain Drainہوا ہے۔انہوں نے کہاکہ آل پارٹیز کانفرنس میں تمام سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق ہوئی ہیں کہ صوبہ خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقہ جات سے غربت اور بے روزگاری کے خاتمے کیلئے انڈسٹریلائزیشن کو فروغ دیا جائیگا اور وفاقی حکومت پر مشترکہ طور پر دبائو ڈال کر ملک کے پسماندہ علاقوں میں صنعتکاری کیلئے خصوصی پالیسی بنائی جائیگی اور صوبہ خیبر پختونخوا کے Locational Disadvantageکو ختم کرکے Equal Level Playing Field فراہم کی جائے گی ۔

مجھے بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ماتحت اداروں کا رویہ انتہائی unfriendlyہے جس کی تفصیلات میں آگے چل کر آپ کو بتائوں گا۔ انہوں نے کہاکہ محکمہ سوئی نادرن گیس پائپ لمیٹڈ نے صوبہ خیبر پختونخوا کی صنعتوں اور کمرشل اداروں سے مارچ کے بلوں میں ری گیسی فائیڈ لیکویفائیڈ نیچرل گیس (RLNG) کی وصولی کے لئے صوبے کی تمام صنعتوں اور کمرشل اداروں کو نوٹسز جاری کئے ہیں اور اپریل کے بلوں میں RLNG چارجزڈال کر ان کی وصولی شروع کردی ہے ۔

اس حوالے سے بزنس کمیونٹی میں شدید تشویش اور غم و غصہ پایا جاتا ہے ۔ گیس میں خود کفیل اس صوبہ کے کاروباری طبقے پر RLNG کی بھاری قیمتوں کا بوجھ غیر آئینی اور غیر منصفانہ ہونے سمیت پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 158 کی کھلی خلاف ورزی ہے ۔ خیبر پختونخوا کی بزنس کمیونٹی پہلے ہی دہشت گردی اور انتہاء پسندی سے متاثر ہے اور اب اس صوبہ کی بزنس کمیونٹی پرآر ایل این جی کی بھاری قیمتوں کا بوجھ ڈالنا اس صوبہ کی معیشت پر قاتلانہ حملہ کے مترادف ہے ۔

انہوں نے کہاکہ اب سرحد چیمبر نے RLNG کے معاملے پر نہ صرف تمام سیاسی جماعتوں سے رابطے شروع کردیئے ہیں بلکہ پشاور ہائی کورٹ سے RLNG کے خلاف رجوع بھی کرلیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ سرحد چیمبر آف کامرس وفاقی حکومت پر یہ واضح کردینا چاہتے ہیںکہ صوبائی حقوق پر کسی قسم کی کوئی سودا بازی نہیں ہونے دی جائے گی اور صوبہ خیبر پختونخوا کی صنعتوں اور کاروبار کے ساتھ یہ گھنائونا کھیل نہیں کھیلنے دیا جائے گا ۔

انہوں نے وفاقی حکومت سے مطالبہ ہے کہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 158 کے تحت خیبر پختونخو امیں پیدا ہونیوالی گیس پر پہلاحق اس صوبہ کا ہے اور 158 کے تحت گیس میں سرپلس صوبوں کی صنعتوں اور کاروباری طبقے سے RLNG کی وصولی کا سلسلہ فوری طور پر روکا جائے ۔بصورت دیگر امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوگا جس سے صوبہ میں بے روزگاری بڑھے گی اور عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔

انہوں نے وفاقی حکومت سے مطالبہ ہے کہ اس صوبہ کے صنعتکاروں ،ْ تاجروں اور عوام سے گیس کے بلوں میں گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس (GIDC) اور بجلی کے بلوں میں فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کو غیر متعلقہ ہونے کی وجہ سے فوری طور پر ختم کیا جائے اور اس حوالے سے بھی پشارو ہائی کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے ۔انہوں نے کہاکہ پیسکو چیف بزنس کمیونٹی سے نہ تو ملاقات کے لئے تیار ہیں اور نہ ہی اُن کے مسائل کے حل کیلئے سنجیدہ ہیں۔

صنعتوں کے لوڈ بڑھانے اور انڈسٹریل کنکشن کی فراہمی سمیت زیر التواء درخواستوں پر کوئی کام نہیں ہو رہا ۔ اس حوالے سے سرحد چیمبر کی جانب سے کئی بار پیسکو چیف کو خطوط لکھے گئے لیکن وہ ان خطوط کا جواب کیا دیتے وہ تو ہم سے ملنے تک تیار نہیں۔انہوں نے وفاقی حکومت سے مطالبہ ہے کہ فوری طور پربزنس فرینڈلی رویہ رکھنے والے پیسکو چیف ایگزیکٹو کی تعیناتی عمل میں لائی جائے اور انڈسٹریل اور کمرشل صارفین کیلئے مخصوص Help Desk قائم کیا جائے ۔

انہوں نے کہاکہصوبائی محکمہ صنعت ،ْ KPBOIT ،ْ PEDO ،ْ KPOGCL ،ْ KP TEVTA اور KPEZMEC سمیت صنعت و تجارت سے متعلقہ محکموں کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی ہے اور یہ تمام ادارے بھی خیبر پختونخوا میں انڈسٹریلائزیشن کے فروغ اور اقتصادی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ میرا آپ کے توسط سے وفاقی اور صوبائی حکومت سے مطالبہ ہے کہ صنعت و تجارت سے متعلقہ تمام اداروں اور چیمبرز کے صدور پر مشتمل ایک Apex Body قائم کی جائے جو حکومت اور پرائیویٹ سیکٹر کے درمیان بہترین کوآرڈینیشن اور تعاون کو فروغ دے ۔

انہوں نے کہاکہ پاکستان اور افغانستان کے مابین باہمی تجارت کے فروغ کا انحصار پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے نئے معاہدہ پر ہے ۔ افغان حکومت چونکہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدہ میں انڈیا کو شامل کرنا چاہتی ہے جو کہ پاکستان اور بزنس کمیونٹی کے لئے قابل قبول نہیں ۔ اس وجہ سے افغان حکومت پاکستانی ایکسپورٹ کی راہ میں رکاوٹیں کھڑ ی کر رہی ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان APTTA کے معاملے پر افغان حکومت کے ساتھ فوری طور پر مذاکرات کرے اور اُن کو اس سلسلے میں قائل کرے کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی آڑ میں باہمی تجارت کی راہ میں رکاوٹیں نہ کھڑی کی جائیں ۔

حال ہی میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے افغانستان کے دورہ کے موقع پر افغانستان سے ایکسپورٹ ہونیوالی اشیاء پر اضافی ریگولیٹری ڈیوٹی بھی ختم کرنے کا اعلان کیا ہے اور یہ اعلان انہوں نے سرحد چیمبر کے مطالبہ پر کیا کیونکہ پاکستان کی 95فیصد ایکسپورٹ کے مقابلے میں افغانستان سے صرف5فیصد اشیاء امپورٹ ہوتی ہیں لیکن افغان حکومت نے 5فیصد امپورٹ پر ریگولیٹری ڈیوٹی کے نفاذ کے بدلے پاکستان کی 95 فیصد ایکسپور ٹ پر اضافی ٹیکسز عائد کردیئے جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم تیزی سے کم ہوکر 500ملین ڈالر تک آگیا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ اس حوالے سے حکومت پاکستان کو اپناموثر کردار ادا کرنا چاہئے اور حکومتی سطح پر افغان حکومت کے ساتھ اعلیٰ سطحی اور موثر مذاکرات کرنے چاہئیں اور مذاکراتی عمل میں سرحد چیمبر کو اعتماد میں لینا چاہئے ۔ انہوں نے کہاکہ سرحد چیمبر نے وفاقی بجٹ برائے سال 2018-19ء کیلئے تجاویز وفاقی حکومت ،ْ وزارت خزانہ اور ایف بی آر سمیت دیگر متعلقہ اداروں کو بھجوا دی ہیں ۔

عموماً دیکھنے میں آتا ہے کہ بجٹ تیار ہوتا ہے اور ان تجاویز کو بجٹ کا حصہ بنانے کی بجائے ردی کی ٹوکری کی نذر کردیا جاتا ہے ۔ میرا آپ کے توسط سے وفاقی حکومت سے مطالبہ ہے کہ سرحد چیمبر سمیت ملک کے تمام چیمبرز کی جانب سے پیش کردہ بجٹ تجاویز کو بجٹ کا حصہ بنایا جائے اور بزنس کمیونٹی کی جانب سے پیش کردہ سفارشات پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے ۔

انہوں نے کہاکہوزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے حال ہی میں اکنامک ریفارمز پیکیج کے تحت پاکستانیوں اور اوور سیز پاکستانیوں کے لئے کالا دھن سفید کرنے کی 5نکاتی ٹیکس ایمنسٹی سکیم کا اعلان کیا جسے ہم نے مشروط طور پرخوش آئند قرار دیا ۔ہم سمجھتے ہیں کہ اگر حکومت اس سکیم کے ذریعے صرف ٹیکس اکٹھا کرنا چاہتی ہے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور اگر اس ایمنسٹی سکیم کے ذریعے ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنا مقصود ہے تو حکومت نے سرحد چیمبر اور بزنس کمیونٹی کا دیرینہ مطالبہ پورا کردیا ہے اور بزنس کمیونٹی اس سکیم کا خیر مقدم کرتی ہے ۔

5 نکاتی ٹیکس ایمنسٹی سکیم کے مثبت اور منفی پہلوئوں پر اگر روشنی ڈالی جائے تو روایتی طور پر ملک کی بزنس کمیونٹی اور چیمبرز ایمنسٹی سکیم کی مخالفت کرتے ہیں کیونکہ ایمنسٹی سکیم کا اعلان کرکے حکومت ہر 8 سال 10 سال بعد ٹیکس چوروں کو راستہ دیکرکالا دھن سفید کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے جس سے ایماندار اور حقیقی ٹیکس گزاروں کی نہ صرف حق تلفی ہوتی ہے بلکہ ایسی سکیمیں ٹیکس پیئرز کے ساتھ سراسر مذاق ہیں۔

ایمنسٹی سکیم میں شناختی کارڈ نمبر ہی کو نیشنل ٹیکس نمبر قرار دینے ،ْ سالانہ 12 لاکھ آمدنی ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دینے ،ْ انکم ٹیکس ریٹ میں کمی ،ْ ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے والے افرادکیلئے 40 لاکھ روپے سے زائد مالیت کی جائیدادیں خریدنے پر پابندی عائد کرنے ،ْ رئیل اسٹیٹس سیکٹر میں وہ جائیدادیں جو لوگوں نے ڈکلیئر نہیں کیں اُن کے لئے ڈی سی اور ایف بی آر ریٹ ختم کرکے اُنہیں خود اپنی ویلیو ڈکلیئر کرنے کا اختیار دینے اور انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کے سیکشن 111 کے تحت ایک سال میں ترسیلات زر کی حد ایک لاکھ ڈالر تک مقرر کرنا ایمنسٹی سکیم کے خوش آئند اقدامات ہیں۔

ایمنسٹی سکیم میں بیرون ملک سے اثاثے پاکستان لانے پر 2 فیصد ٹیکس عائد کرنے کی بجائے اُنہیں باہر سے پیسہ لاکر انڈسٹریز سیکٹر میں پیسہ لگانے کا پابند بنانا چاہئے تھا ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایمنسٹی سکیم پر پارلیمنٹ میں قانون سازی کی جانی چاہئے اور اس کو پاکستان کی آخری ایمنسٹی سکیم ڈکلیئر کرنا چاہئے تاکہ آئندہ کالے دھن کو سفید کرنے کے لئے کسی ایمنسٹی سکیم کا اعلان نہ کیا جائے ۔

حالیہ ایمنسٹی سکیم کو آخری ایمنسٹی سکیم تسلیم کرتے ہوئے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کے سیکشن 111 کو بجٹ میں مکمل طور پر ختم کرنا چاہئے ۔اگر حکومت حقیقی معنوں میں ٹیکس نیٹ میں اضافہ چاہتی ہے تو اُسے بزنس فرینڈلی پالیسیاںاور ٹیکس دہندگان کو ہراساں کرنے والی پالیسیوں کو فوری طور پر ختم کرنا ہوگا تاکہ پاکستان کی معاشی ترقی کے لئے نئے ٹیکس گزار سامنے آئیں اور اپنے حصہ کا جائز ٹیکس بخوشی ادا کریں۔