کیا پاکستان انسانی حقوق کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرسکتا ہے‘ایچ آرسی پی

پیر 16 اپریل 2018 17:39

کیا پاکستان انسانی حقوق کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرسکتا ہے‘ایچ ..
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 اپریل2018ء) 2018:2017میں پاکستان اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق(ایچ آرسی)کا رکن منتخب ہوا۔ایچ آرسی ' دنیا بھرمیں تمام انسانی حقوق کے فروغ اورتحفظ کی ذمہ دارہی'۔ پاکستان نے اگرچہ اس پیش رفت کو ایک بڑی 'سفارتی کامیابی' قراردیا ہے مگرپاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق(ایچ آرسی پی) کو افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ملک کا تیسرا عالمگیرسلسلہ وارجائزہ(یوپی آر) انتہائی مایوس کن تھا۔

اپنی سالانہ رپورٹ، ''2017 میں انسانی حقوق کی صورتحال''، جو مرحومہ عاصمہ جہانگیرکے نام کی گئی ہے، کے اجرا کے موقع پرایچ آرسی نے روزبروز بڑھتی ہوئی جبری گمشدگیاں، ماورائے عدالت قتل اور فوجی عدالتوں کے اختیارات کو ملنے والی وسعت پرتشویش کا اظہارکیا اورکہا مذہب کی تضحیک کے جھوٹے الزامات اوراس کے نتیجے میں ہونیوالے تشدد، پرخطر حالتوں میں بچوں سے مشقت لیے جانے، اورخواتین پرہونے والا تشدد گذشتہ برس انسانی حقوق کی افسوسناک صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔

(جاری ہے)

ایک اورتشویشناک بات یہہے کہ بعض حقوق کو قانون کا تحفظ تو حاصل ہے مگران کی پامالی کی صورت میں مجرموں کے خلاف قانونی کارروائی اوران کی سزایابی کی بہت کم مثالیں ملتی ہیں۔اس تناظرمیں دیکھا جائے تو 2017 کے دوران ملک میں جو واقعات پیش آئے ہیں انہوں نے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے پاکستان کے عزم اورنیک نیتی پرشکوک و شبہات پیدا کردیے ہیں۔

ایچ آرسی پی کی رپورٹ کے مطابق، انکوائری کمیشن برائے جبری گمشدگان کو 2017 کے دوران جبری گمشدگیوں کے 868 کیسز موصول ہوئے جن میں سے کمیشن نے 555 کیسز نبٹائے، تاہم اٹھا کرغائب کیے گئے افراد کی اصلی تعداد کہیں زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ہوسکتا ہے کہ دہشت گردی سے منسلک ہلاکتوں میں کمی آئی ہو مگرمذہبی اقلیتوں اورقانون نافذ کرنے والے ادرے بدستورتشدد کی زد میں رہے ہیں۔

ایک ایسے ماحول میں جہاں ' قصوروارثابت ہونے تک معصوم' کی کوئی وقعت نہ ہو، مذہب کی تضحیک کا نتیجہ جنونی ہجوم کے ہاتھوں قتل کی صورت میں نکلتا ہے۔ انتہائی مشقت طلب گھریلو کام کے لیے رکھے گئے بچے پرتشدد کیا گیا۔ ایک نوجوان لڑکے اورلڑکی کو ان کے اپنے ہی خاندان نے 'غیرت' کے نام پربجلی کے جھٹکے لگا کرماردیا۔ انسانی حقوق کے ایک کارکن کو رات کی تاریکی میں غائب کردیا گیا جس کا ابھی تک سراغ نہیں مل سکا۔

یہ انفرادی کہانیاں ایک اجتماعی داستان کا حال احوال سناتی ہیں۔قتل، جنسی زیادتی، تیزاب کے حملے، اغوا گھریلو تشدد اورخاص طورپرنام نہاد 'غیرت' کے نام پرقتل کا سلسلہ جاری رہا اورایسے زیادہ ترواقعات رپورٹ نہیں ہوئے۔ درحقیقت، 2017ء کے پہلے دس ماہ میں چاروں صوبوں میں خواتین پرتشدد کے 5660 واقعات رپورٹ ہوئے۔ بچے ہرقسم کے تشدد کا سامنا کرتے رہے باوجود اس کے کہ حالیہ برسوں میں بچوں کے تحفظ پرکئی قوانین منظورہوئے ہیں۔

اسی طرح، خواجہ سرا برادری کے تحفظ کے لیے ہونیوالی قانون سازی انہیں تشدد اورامتیازی سلوک سے محفوظ نہیں رکھ سکی۔ صحافی اوربلاگرز دھمکیوں، حملوں اوراغوا کاریوں کا نشانہ بنتے رہے اور مذہب کی تضحیک کا قانون لوگوں کو خاموش کرنے کے لیے استعمال ہوتا رہا۔ عدم برداشت اورانتہا پسندی نے عوام کے معاشی و ثقافتی سرگرمیاں منانے کے حق کو شدید متاثرکیا جبکہ حکام شدید سیاسی ردعمل کے خوف سے انتہاپسندوں کے خلاف کارروائی کرنے سے گریزاں ہیں۔

پاکستان میں اب بھی سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد د بہت زیادہ ہے اوریہ ملک صحت پرعالمی ادارہ صحت کے تجویز کردہ جی ڈی پی کے چھ فیصد سے بہت کم خرچ کرتا ہے۔ ملک میں ایک کروڑ سے زائد رہائشی یونٹوں کی کمی ہے۔بے شمارمجرم آزاد گھوم رہے ہیں۔ جیلیں پھربھی بھری پڑی ہیں اورعدالتوں میں زیرالتوا مقدمات کی بھرمارہے۔ عدالتی نظام کی اصلاح، جس کی اقوام متحدہ کے خصوصی رپورٹئیرنے سفارش بھی کی تھی اورجس کا نیشنل ایکشن پلان میں عہد بھی کیا گیا تھا، پرابھی تک کوئی سنجیدہ پیش رفت نہیں ہو سکی۔

انسانی حقوق کے عالمی محافظین کی نظرمیں اپنا قدوقامت بڑا کرنے کے لیے پاکستان نے جو اقدامات کیے ہیں ہو سکتا ہے کہ ان کے پیچھے نیک نیتی اوراچھا ارادہ کارفرما ہومگراس کے لیے صرف قانون سازی کافی نہیں ہے۔ انسانی حقوق کے قومی اداروں کو اپنے فرائض بخوبی انجام دینے کے لیے مناسب اختیارات، آزادی اوروسائل چاہییں۔ اورایسا نہ ہونے کی صورت میں، نمائندگی سے محروم اورہرلحاظ سے غیرمحفوظ لوگوں کے پاس انسانی حقوق کے محافظین کی طرف رجوع کرنے کے علاوہ اورکوئی چارہ نہیں بچتا اورانسانی حقوق کے محافظین کو ان پسے ہوئے لوگوں کی آواز بننے کے لیے اپنی آزادی دائو پرلگانا پڑتی ہے۔

متعلقہ عنوان :