مشرف دور حکومت میں وزیر داخلہ آفتاب شیرپاؤ نے چار ہزار پاکستانی غیر ملکیوں کے حوالے کئے ،ْ جسٹس (ر)جاوید اقبال کا انکشاف

غیرملکی ایجنسیاں لوگوں کو لاپتہ کرکے آئی ایس آئی پر الزام لگانا چاہتی ہیں ،ْاکثر بازیاب ہونے والے لاپتہ افراد خوف کی وجہ سے کمیشن کے سامنے واقعات سنانے سے اجتناب کرتے ہیں ،ْلاپتہ افراد میں سے ستر فیصد سے زائد لوگ عسکریت پسندی میں ملوث پائے گئے ،ْایم کیو ایم کی قیادت کی اپنے لاپتہ افراد معاملے میں عدم دلچسپی رہی ،ْکمیشن کے پاس ایم کیو ایم کارکنان کے 29 کیسز زیر التوا ہیں ، جو 1992 سے 1995 تک کے ہیں ،ْغیر ملکی این جی اوز پر پابندی کے حق میں ہوں ،ْشکیل آفریدی کے کردار سے بین الاقوامی این جی اوز کے کردار کو پرکھا جا سکتا ہے ،ْلاپتہ افراد کمیشن کے سربراہ کی قائمہ کمیٹی کو بریفنگ

پیر 16 اپریل 2018 17:33

مشرف دور حکومت میں وزیر داخلہ آفتاب شیرپاؤ نے چار ہزار پاکستانی غیر ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 اپریل2018ء) لاپتہ افراد کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے انکشاف کیا ہے کہ مشرف دور حکومت میں وزیر داخلہ آفتاب شیرپاؤ نے چار ہزار پاکستانی غیر ملکیوں کے حوالے کئے ،ْ غیرملکی ایجنسیاں لوگوں کو لاپتہ کرکے آئی ایس آئی پر الزام لگانا چاہتی ہیں ،ْاکثر بازیاب ہونے والے لاپتہ افراد خوف کی وجہ سے کمیشن کے سامنے واقعات سنانے سے اجتناب کرتے ہیں ،ْلاپتہ افراد میں سے ستر فیصد سے زائد لوگ عسکریت پسندی میں ملوث پائے گئے ،ْایم کیو ایم کی قیادت کی اپنے لاپتہ افراد معاملے میں عدم دلچسپی رہی ،ْکمیشن کے پاس ایم کیو ایم کارکنان کے 29 کیسز زیر التوا ہیں ، جو 1992 سے 1995 تک کے ہیں ،ْغیر ملکی این جی اوز پر پابندی کے حق میں ہوں ،ْشکیل آفریدی کے کردار سے بین الاقوامی این جی اوز کے کردار کو پرکھا جا سکتا ہے۔

(جاری ہے)

پیر کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی انسانی حقوق کا اجلاس زہرہ ودود فاطمی کی سربراہی میں ہوا۔ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے بنائے گئے کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے معاملے پر کمیٹی کو بریفنگ دی جس میں اہم انکشافات سامنے آئے۔جسٹس (ر) جاوید اقبال نے بتایا کہ اکثر بازیاب ہونے والے لاپتہ افراد خوف کی وجہ سے کمیشن کے سامنے واقعات سنانے سے اجتناب کرتے ہیں، لاپتہ افراد میں سے ستر فیصد سے زائد لوگ عسکریت پسندی میں ملوث پائے گئے، اگر کوئی شخص دہشت گرد ہے تو اس کا مطلب نہیں کہ اس کے گھر والے بھی دہشت گرد ہیں، لاپتہ افراد کے اہل خانہ کی ذمہ داری ریاست کی ہے۔

جسٹس (ر) جاوید اقبال نے بتایا کہ ایم کیو ایم کی قیادت کی اپنے لاپتہ افراد معاملے میں عدم دلچسپی رہی، سب جانتے ہیں ایم کیو ایم کو حکومت کا بھی موقع ملا اور عشرت العباد گورنر سندھ رہے تاہم اختیار ملنے کے باوجود ایم کیو ایم نے اپنے لاپتہ افراد کی بازیابی میں سنجیدگی ظاہر نہیں کی، ایم کیو ایم کے بعض لاپتہ افراد کا 20 سال گزرنے کے باوجود تاحال پتہ نہیں چل سکا، عشرت العباد نے لاپتہ افراد کے لواحقین کو پلاٹ اور ایک نوکری دی اور معاملہ ختم کردیا۔

جسٹس (ر) جاوید اقبال کے مطابق اس وقت ایم کیو ایم کے 14 لاپتہ افراد کے کیسز کمیشن کے پاس ہیں، ایم کیو ایم کے لاپتہ افراد کی تعداد خطرناک حد تک تجاوز کر گئی ہے، اس حوالے سے اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ نے سنجیدگی سے نوٹس لیا ہے، کمیشن کے پاس ایم کیو ایم کارکنان کے 29 کیسز زیر التوا ہیں ، جو 1992 سے 1995 تک کے ہیں۔جسٹس (ر) جاوید اقبال نے بتایا کہ مشرف دور حکومت میں وزیر داخلہ آفتاب شیرپاؤ نے چار ہزار پاکستانی غیر ملکیوں کے حوالے کئے، پرویز مشرف نے پاکستانیوں کو غیر ملکیوں کے حوالے کرنے کا اعتراف بھی کیا، مشرف اور شیرپاؤ کے اقدامات کے خلاف پارلیمنٹ میں آواز نہیں اٹھائی گئی، پارلیمنٹ کو مشرف اور شیرپائو کے اقدامات کی تحقیقات کروانی چاہئے تھی، پوچھا جانا چاہئے تھا کہ آخر کس قانون کے تحت پاکستانیوں کو غیر ملکیوں کے حوالے کیا گیا، ملک میں پارلیمنٹ، آئین، عدالتیں ہونے کے باوجود کیسے کسی پاکستانی کو غیر ملک کے حوالے کیا گیا۔

جسٹس (ر) جاوید اقبال نے بتایا کہ حوالگی کا کوئی معاہدہ نہ ہونے کی وجہ سے پاکستانیوں کو خفیہ طریقے سے غیر ملکیوں کے حوالے کیا گیا جس کے عوض ڈالرز حاصل کئے گئے، یہ نہ پوچھا جائے کہ کتنے ڈالرز ملے، ملک دشمن ایجنسیز بھی لاپتہ افراد کے معاملے میں ملوث رہی ہیں، یہ ایجنسیز لوگوں کو اٹھا کر آئی ایس آئی اور ایم آئی پر الزام لگانا چاہتی ہیں۔

جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ غیر ملکی این جی اوز پر پابندی کے حق میں ہوں، کیونکہ یہ ملک کی بجائے غیر ملکیوں کے مفاد میں کام کر رہی ہیں، انہیں فنڈنگ بھی غیر ملکیوں سے مل رہی ہے، میرے اختیار میں ہوتا تو این جی اوز پر پابندی عائد کر چکا ہوتا لیکن سیاسی مصلحت آڑے آجاتی ہے، شکیل آفریدی کے کردار سے بین الاقوامی این جی اوز کے کردار کو پرکھا جا سکتا ہے۔

جسٹس (ر) جاوید اقبال نے بتایا کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کے حوالے سے سامنے آنے والے اعداد و شمار حقائق کے برعکس ہیں ،ْبلوچستان میں مختلف گروپ ہیں اور کئی لوگ ان کے ساتھ چلے گئے ہیں، سابق وزیراعلیٰ بلوچستان اسلم رئیسانی اور نصراللہ بلوچ کو فہرست فراہم کرنے کا کہا تھا لیکن کوئی فہرست فراہم نہیں کی گئی۔جسٹس (ر) جاوید اقبال نے بتایا کہ لاپتہ افراد کے معاملے پر غیر ملکی آقاؤں کو خوش کرنے کی کوشش کی گئی، کمیشن کو لاپتہ افراد کے 4929 کیسز موصول ہوئے، مارچ 2011 سے فروری 2018 تک کمیشن نے 3219 کیسز نمٹا دئیے، اس وقت کمیشن کے پاس لاپتہ افراد کے 1710 کیسز زیر تحقیقات ہیں، گزشتہ دو سال میں کمیشن کو اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ برائے لاپتہ افراد کی جانب سے بھی 368 کیسز موصول ہوئے جن میں سے زیادہ تر کا تعلق سندھ سے ہے، اگست 2016 میں کراچی سے 68 لاپتہ افراد کا پتہ لگا لیا گیا ، جو یا جیل میں تھے یا واپس گھر لوٹ چکے تھے۔

جسٹس (ر) جاوید اقبال کے مطابق کراچی سے 368 لاپتہ افراد کیسز میں سے 309 نمٹا دئیے گئے، مئی 2017 میں اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ کے جنیوا میں ہونے والے اجلاس میں پاکستان کے خلاف لاپتہ افراد کے 723 کیسز درج ہوئے، ان میں سے اب 505 نمٹا دئیے گئے ہیں تاہم 218 کیسز کمیشن کے پاس زیر التوا ہیں، ان میں 14 افغان شہریوں کے بھی مقدمات ہیں جو 1982 سے 1986 میں پاکستان سے لاپتہ ہوئے۔

کمیٹی کی رکن نسیمہ حفیظ نے کہا کہ ملک میں منظور پشتین کو میڈیا پر نظر انداز کیا جا رہا ہے، وہ لاپتہ افراد کی بات کر رہا ہے، اس کے جلسے میں وہ خواتین شریک تھیں جن کے ہاتھوں میں ان کے خاندان کے دو ، تین لاپتہ افراد کی تصاویر تھیں، جاوید اقبال نے کہا کہ منظور پشتین سے رابطہ کروں گا، ان سے لاپتہ افراد کی فہرست لیکر معاملے کو دیکھوں گا۔