بجلی اورتوانائی کی رسد میں اضافہ، مینوفیکچرنگ اور فصلوں کی کاشت میں بڑھوتری، اخراجات میں کمی اور سرمایہ کاری میں اضافہ سے مالی سال 2018ء میں پاکستان کی معیشت کی مضبوط بڑھوتری کا امکان ہے

پاکستان کی معیشت کے بارے میں ایشیائی ترقیاتی بنک کی سالانہ آئوٹ لک رپورٹ

اتوار 15 اپریل 2018 13:00

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 15 اپریل2018ء) ایشیائی ترقیاتی بنک نے کہاہے کہ بجلی اورتوانائی کی رسد میں اضافہ، مینوفیکچرنگ اور فصلوں کی کاشت میں بڑھوتری، اخراجات میں کمی اور سرمایہ کاری میں اضافہ سے مالی سال 2018ء میں پاکستان کی معیشت کی مضبوط بڑھوتری کی حامل رہنے کا امکان ہے۔ یہ بات ایشیائی ترقیاتی بنک کی نئی رپورٹ میں کہی گئی ہے۔

بنک کی سالانہ آئوٹ لک (اے ڈی او) 2018ء میں مالیاتی چیلینجوں اورحسابات جاریہ کے خسارے کے تناظر میں مالی سال 2018ء اور مالی سال 2019ء میں مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح 5.6 فیصد اور 5.1 فیصد تک رہنے کی پیشن گوئی کی گئی ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بنک کے کنٹری ڈائریکٹرژیائو ہونگ یانگ نے اس رپورٹ میں کہا ہے کہ بجٹ اورحسابات جاریہ کے خسارے میں کمی اوربرآمدات میں اضافہ کیلئے اقدامات کے نتیجہ میں آنے والے برسوں میں ملک کے اقتصادی امکانات مثبت رہیں گے۔

(جاری ہے)

اندرونی اورعلاقائی سلامتی، مجموعی مسابقت میں بہتری، سرکاری شعبہ میں کام کرنے والے اداروں کو تقویت دینے اور بنیادی ڈھانچہ کے منصوبوں کو برقت مکمل کرنے اور انہیں مؤثر انداز میں استعمال میں لانے سے پاکستان مضبوط بڑھوتری کے راستے پر گامزن رہے گا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ30 جون 2017ء تک اشیاء اور خدمات جی ڈی پی کا 80 فیصد رہا اوراس میں 8.6 فیصد کی شرح سے اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

اقتصادی بڑھوتری میں اضافہ کیلئے سٹیٹ بنک نے مالی سال 2017ء میں پالیسی ریٹ 5.75 فیصٖد کی شرح سے برقراررکھا، اندرونی قرضوں میں 13.1 فیصد جبکہ نجی قرضوں کے پھیلائو میں 16.1فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ جنوری 2018ء میں سٹیٹ بنک آف پاکستان نے پالیسی ریٹ میں 25 بیسز پوائنٹس کا اضافہ کیا جس سے پالیسی ریٹ 6 فیصد کی سطح پر پہنچ گئی جس کی وجہ سے مالی سال کے ابتدائی 8 مہینوں میں قرضوں کے پھیلائو میں سست روی کارحجان رہا۔

طلب کے دبائو کی وجہ سے درآمدات میں اضافہ ہوا جس سے حسابات جاریہ کاخسارہ بڑھ گیا اورزرمبادلہ کے ذخائر بھی نیچے چلے گئے، یہ صورتحال پالیسی کوسخت بنانے کی متقاضی ہے۔مسابقت میں اضافہ اور پاکستانی برآمدات میں اضافہ کیلئے سٹیٹ بینک نے دسمبر 2017ء میں روپے اور ڈالر کے مبادلہ کی شرح میں لچک کی اجازت دے دی جس کی وجہ سے مارچ 2018ء تک روپے کی قدر میں کمی ہوئی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مسلسل دوسرے برس پاکستان کے زراعت کے شعبہ نے ترقی کی۔ پاک۔چین اقتصادی راہداری اور بنیادی ڈھانچہ کے منصوبوں کی وجہ سے اندرونی طلب میں نمایاں اضافہ ہوا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مالی سال 2004ء سے لے کر 2011ء تک پاکستان کی برآمدات میں 10.7 فیصد سالانہ کی شرح سے اضافہ ہوا جس کے بعد اس میں بتدریج 2.6 فیصد سالانہ کی شرح سے کمی ہوئی۔

رپورٹ کے مطابق گذشتہ ایک عشرہ میں جی ڈی پی کے حجم کے لحاظ سے برآمدات میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق مالی سال 2017ء میں افراط زر کی شرح 4.2 فیصد رہی جو پیوستہ سال کے مقابلہ میں 1.3 فیصد زیادہ تھی۔ اشیاء خوراک کی افراط زر کی شرح 3.8 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ مالی سال 2017ء میں خوراک اور توانائی کے افراط زر کی شرح 5.2 فیصد جبکہ مالی سال 2016ء میں 4.2 فیصد ریکارڈ کی گئی۔

ریونیو حاصل میں کمی اور ترقیاتی اخراجات میں اضافہ کی وجہ سے وفاقی اور صوبائی میزانیوں میں مالی سال 2017ء کے دوران بالحاظ جی ڈی پی 5.8 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا جبکہ ہدف 3.8 فیصد تھا۔ گذشتہ سال ٹیکس ریونیو کی شرح میں 8.4 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ رپورٹ کے مطابق مجموعی اخراجات میں 17.3 فیصد کی کمی کی وجہ سے مالی سال 2018ء میں بجٹ کا خسارہ اعتدال کی سطح پر رہنے کا امکان ہے۔ سرمایہ کاری کے اخراجات میں اضافہ سے حسابات جاریہ کے خسارہ میں پھیلائو دیکھنے میں آ سکتا ہے۔ اس صورتحال کے تناظر میں محفوظ اور مناسب فنانسنگ کی صورت میں زرمبادلہ کے ذخائر کے خلاء کو پر کیا جا سکتا ہے۔

متعلقہ عنوان :