سپریم کورٹ، گزشتہ دس سال کے دوران ایم ڈی پی آئی آئی اے کے طور پرکام کرنے والے افسران کو بیرون ملک جانے سے روکنے کا حکم، سماعت دوہفتوں کیلئے ملتوی

جمعرات 12 اپریل 2018 23:57

سپریم کورٹ،  گزشتہ دس سال کے دوران ایم ڈی پی آئی آئی اے کے طور پرکام ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 12 اپریل2018ء) سپریم کورٹ نے پی آئی اے سمیت قومی اداروں کی نجکاری اورآڈٹ کے حوالے سے ازخود نوٹس کیس میں گزشتہ دس سال کے دوران ایم ڈی پی آئی آئی اے کے طور پرکام کرنے والے افسران کو بیرون ملک جانے سے روکنے کا حکم جاری کرتے ہوئے مزید سماعت دوہفتوں کیلئے ملتوی کردی ہے اورکہاہے کہ 2008ء سے 2018 ء تک بطور ایم ڈی پی آئی اے کام کرنے والوں کا بیرون ملک سفر عدالتی اجازت سے مشروط ہوگا۔

جمعرات کوچیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمرعطا بندیال اورجسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ اس موقع پرپی آئی اے کے وکیل نے عدالت کو ائیرلائن کے آڈٹ سے متعلق 9 سال کا ریکارڈ پیش کیا۔ یادرہے کہ گزشتہ سماعت پر چیف جسٹس نے ایم ڈی پی آئی اے سے ادارے کی 10 سالہ آڈٹ رپورٹ طلب کرتے ہوئے حکم دیا تھا کہ ایم ڈی ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہوں ، سماعت کے آغازپر چیف جسٹس نے پی آئی اے کے وکیل سے استفسار کیا کہ مارکیٹ میں پی آئی اے کے حصص کی کیا قیمت ہے ،عدالت کو اب تک پی آئی کوہونے والے نقصانات سے بھی آگاہ کیاجائے، پی آئی اے کوبرباد کرنے والے ہمارے دشمن اور غدار ہیں۔

(جاری ہے)

فاضل وکیل نے بتایا کہ اس وقت مارکیٹ میں پی آئی اے کی فی شیئر قیمت 5 روپے ہے تاہم ادارے کو بہت نقصانات کاسامناکرنا پڑ رہا ہے۔ ان کاکہنا تھا کہ 2013 ء میں پی آئی اے کو لگ بھگ 44 ارب روپے، 2014 ء میں 37 ارب ، 2015 ء میں 32 ارب روپے، 2016 میں 45 ارب روپے جبکہ 2017 میں 44 ارب روپے کا نقصان پہنچا۔ جس پرچیف جسٹس نے سخت برہمی کااظہارکیا اور سابق ایم ڈیز کو مخاطب کرتے ہوئے اپنے ریمارکس میں کہاکہ آپ لوگوں نے ظلم کرتے ہوئے اتنا بڑا اثاثہ برباد کردیا ہے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے پی آئی اے میں نئی بھرتیوں پر پابندی عائد کرتے ہوئے ان تمام ایم ڈیز کوعدالت طلب کرلیا اورکہا کہ پی آئی اے کو جتنا نقصان ہوا ہے اس کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہوگی، انہیں کسی طور نہیں چھوڑا جائے گا۔ سماعت کے دورا ن چیف جسٹس نے اکنامک ایکسپرٹ ڈاکٹر فرخ سلیم کو اس کیس میں عدالتی معاون مقرر کرتے ہوئے ان سے کہاکہ وہ قومی ائیر لائن کے خسارے کی انکوائری کیلئے ٹی اوآر بنائیں ،ہم اس معاملے کی تحقیقات کیلئے ایک کمیشن بنائیں گے۔

چیف جسٹس نے فرخ سلیم سے کہاکہ وہ اس بات کا تعین کریں کہ کس کس ایم ڈی کے دور میں نقصان ہوا اور اس کا ذمہ دارکون ہے، جس پرفر خ سلیم نے کہاکہ پی آئی اے کو 2002 ء میں ایک ارب 8 کروڑ روپے کا منافع ہوا تھا، تاہم 2002کے بعد سے پی آئی اے مسلسل خسارے میں جارہی ہے۔ چیف جسٹس نے ان سے کہاکہ ہمیں اصل وجوہات کاپتہ چلناچا ہیے کہ کن وجوہات کی وجہ سے خسارہ ہوا، آخر کتنے عرصے تک ٹیکس دینے والے پی آئی اے کا خرچ برداشت کرتے رہیں گے، گزشتہ دس گیارہ سال کے دوران ایم ڈی پی آئی اے رہنے والوں میں سے کوئی بھی انکوائری ہونے تک باہر نہیں جائیگا، وہ آئندہ سماعت پرعدالت میں حاضرہوں، اگرکسی نے بیرون ملک جانا بھی ہو تو ا نہیں عدالت سے اجازت لینا ہو گی۔

سماعت کے دورا ن اٹارنی جنرل اشترعلی اوصاف نے عدالت سے کہاکہ حکومت پی آئی اے کی نجکاری کا ارادہ نہیںرکھتی لیکن اگر نجکاری کی ضرورت پیش آئی توعدالت کو اعتماد میں لیا جائے گا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے پی آئی اے کے وکیل سے استفسار کیا کہ اگرنجکاری کرنی بھی ہوئی تو کون پی آئی اے کو360 ارب روپے خسارے کے ساتھ خریدے گا۔ چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ ہمیں بتایا جائے کہ پی آئی اے کے منافع بخش روٹس کسے بیچے گئے ہیں اورنیویارک کا روٹ کیوں بند کردیا گیا جس پرفاضل وکیل نے بتایا کہ قومی ائیرلائن کے روٹس بیچنے کا کوئی تصور موجود نہیں، تاہم نیویارک روٹ نقصان میں جانے کے باعث بند کیا گیاہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ لینڈنگ رائٹس دیئے جاتے ہیں جس کے پیسے لئے جاتے ہیں، دوسری جانب متعدد ائیر لائنز نیویارک کے روٹ پر کماتی ہیں، قومی ائیرلائن کیوں نہیں کماسکتی توفاضل وکیل نے کہا کہ نیویارک فلائٹ بند ہونے سے ایک ارب روپے خسارہ کم ہوا ہے ،تاہم روٹ بند کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ روٹ بیچ دیا گیا۔ فاضل وکیل نے ایک استفسار پرعدالت کوبتایا کہ اس کیس کے وہ پی آئی اے سے 15 لاکھ روپے لے رہے ہیں اور ادارے کے بورڈ نے مجھے وکیل مقرر کیا ہے، میں اپنے حوالے سے ہرطر ح کی وضاحت کیلئے تیار ہوں، بعدازاں عدالت نے مزید سماعت ملتوی کردی۔

متعلقہ عنوان :