اٹھارویں آئینی ترمیم کورول بیک کرنے کی باتیں عوام کے دھتکارے لوگ کررہے ہیں ، ،وزیراعلیٰ سندھ

سندھ حکومت صوبے کی جامعات کو سالانہ 5ارب روپے دیتی ہے یہ رقم مولانا سمیع الحق کے کسی دینی مدرسے کو نہیں دی جاتی ،ہمارے ملک کا مستقبل اعلی تعلیم سے وابستہ ہے،صوبے کی جامعات کو جو بھی وسائل درکار ہوں گے حکومت سندھ مہیا کرے گی،وفاق کے کسی نامزد شخص کو یہ اختیار نہیں ہونا چاہئے کہ وہ صوبے کی جامعات کا مالک بن جائے، سندھ اسمبلی میں پالیسی بیان

جمعرات 12 اپریل 2018 23:34

اٹھارویں آئینی ترمیم کورول بیک کرنے کی باتیں عوام کے دھتکارے لوگ کررہے ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 12 اپریل2018ء) وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کو عوام کے دھتکارے ہوئے لوگ رول بیک کرنے کی باتیں کررہے ہیں اور وہی اس ترمیم کیخلاف مہم چلا رہے ہیں،سندھ حکومت صوبے کی جامعات کو سالانہ 5ارب روپے دیتی ہے یہ رقم مولانا سمیع الحق کے کسی دینی مدرسے کو نہیں بلکہ صوبے میں اعلی تعلیم دینے والی جامعات کو دی جاتی ہے،ہمارے ملک کا مستقبل اعلی تعلیم سے وابستہ ہے،صوبے کی جامعات کو جو بھی وسائل درکار ہوں گے حکومت سندھ مہیا کرے گی، انہوں نے کہا کہ وفاق کے کسی نامزد کردہ شخص (گورنر)کو یہ اختیار نہیں ہونا چاہئے کہ وہ صوبے کی جامعات کا مالک بن جائے۔

انہوں نے یہ بات جمعرات کو سندھ اسمبلی میں صوبے کی جامعات کے وائس چانسلرز کے تقرر کا اختیار گورنر سندھ کے بجائے وزیر اعلی سندھ کو دیئے جانے کے حوالے سے صوبائی اسمبلی کی جانب سے گزشتہ دنوں کی جانے والی قانون سازی پر پالیسی بیان دیتے ہوئے کہی۔

(جاری ہے)

اس سے قبل اس معاملے پر سینئر صوبائی وزیر پارلیمانی امور نثار احمد کھوڑو نے ایوان کو بتایا کہ گورنر سندھ نے صوبائی اسمبلی کی جانب سے منظور کردہ چار بلوں پر اعتراضات لگاکر دوبارہ غور کے لئے ایوان کو بھیج دیئے انہوں نے اسپیکر آغا سراج درانی سے درخواست کی کہ انہیں باری سے ہٹ کر یہ معاملہ ضمنی ایجنڈے کے طور پر ایوان میں زیر بحث لانے کی اجازت دی جائے جو اسپیکر کی جانب سے انہیں دیدی گئی۔

ایوان کو بتایا گیا کہ گورنر سندھ کی جانب سے سندھ یونیورسٹیز اینڈ انسٹی ٹیوٹس ترمیمی بل 2018سہیل یونیورسٹی بل، یونیورسٹی آف ٹنڈو محمد خان اینڈ میڈیکل کالج اور کالی موری یونیورسٹی حیدرآباد کا بل بعض اعتراضات کے ساتھ دوبارہ غور کے لئے ایوان میں بھیج دیا گیا ہے۔اس موقع پر وزیر اعلی سندھ نے پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا کہ آئین میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے وظائف سے متعلق جو فہرست موجود ہے اس میں بڑی صراحت کے ساتھ سب کے کاموں اور دائرہ کار کی وضاحت کی گئی ہے ۔

اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد صوبائی حکومتوں کے اختیارات اور ذمہ داریاں زیادہ بڑھ گئی ہیں۔ آئین کی روح کے مطابق ہم نے صوبے کی جامعات کے وائس چانسلرز کے تقرر کے حوالے سے جو نیا طریقہ کار وضع کیا اور اس ضمن میں قانون سازی کی گئی اس پر گورنر سندھ کواعتراض ہے اور انہوں نے سندھ اسمبلی کی جانب سے منظور کردہ سرکاری بلوں پر جو تحریری پیغام بھیجا ہے اس پر سندھ حکومت کا موقف واضح کرنا ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ صوبے کی سرکاری جامعات کے وائس چانسلرز کے حوالے سے گورنر سندھ اسمبلی کے سامنے جواب دہ نہیں ہیں بلکہ وزیر اعلی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گورنر سندھ کا کہنا ہے کہ وزیر اعلی سندھ کے پاس پہلے ہی بہت زیادہ اختیارات ہیں حالانکہ یہ اختیارات مجھے کسی اور نے نہیں بلکہ سندھ اسمبلی کے اس ایوان نے دیئے ہیں۔ماضی میں وائس چانسلرز گورنر سے چھٹی لیکر جاتے تھے اور صوبائی حکومت کو اس بارے میں پتہ بھی نہیں ہوتا تھا۔

سید مراد علی شاہ نے کہا کہ سندھ حکومت نے صوبے کی جامعات کے وائس چانسلرز کی میرٹ کی بنیاد پر تقرری کے لئے ایک تین رکنی سرچ کمیٹی بنائی اور انہوں نے گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران کسی وائس چانسلر کو چیف منسٹر ہاس نہیں طلب کیا البتہ تقرری کے وقت انٹرویو کی غرض سے انہیں ضرور بلایا گیا ،ماضی میں وائس چانسلرز اپنازیادہ تروقت گورنر ہاس میں گزارتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ جس ملک میں قانونی اور آئینی طریقہ کار اختیار کرکے صدر، چیف جسٹس اور وزیراعظم کو ہٹایا جاسکتا ہو وہاں کیا کسی یونیورسٹی کا وائس چانسلر قانون سے مبرا ہے کہ اسے کوئی نہ ہٹاسکے۔ ماضی میں گورنر صاحب جس وائس چانسلر کو چار سال کے لئے مقرر کردیتے تھے پھر اسے کوئی نہیں ہٹا سکتا تھا، نئے قانون میں یہ بات شامل کی گئی ہے کہ اگر ان کی کارکردگی تسلی بخش نہ ہوئی یا کوئی اور بے ضابطگی سامنے آئی تو انہیں ہٹایا بھی جاسکتا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ گورنر سندھ کا جو تحریری پیغام بلوں پر اعتراضات کی شکل میں ملا ہے اس میں جامعات کی ایڈمیشن پالیسی کے حوالے سے سندھ حکومت کی جانب سے گائیڈ لائن دینے پر اعتراض اٹھایا گیا ہے حالانکہ صوبے کی تمام سرکاری جامعات کے لئے سندھ حکومت کی گائیڈ لائن کسی صورت بھی قابل اعتراض نہیں سمجھی جانی چاہئے۔انہوں نے کہا کہ گورنر سندھ کی جانب سے چھ سات صفحات پر مشتمل جو نوٹ موصول ہوا ہے وہ بالکل غلط ہے ،اگر بل میں واقعی ہم سے کوئی کوتاہی ہوئی ہے تو وہ صرف اس کی نشاندہی کریں ہم اسے درست کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن سندھ اسمبلی کی اجتماعی دانس اور سوچ پر سوال اٹھانا مناسب نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جو آئین کی روح کے منافی ہو ۔صوبے میں وفاق کی جانب سے اپنی یونیورسٹیاں اور دوسرے تعلیمی ادارے قائم کرنے کی اب بھی اجازت ہے،آئین نے وفاق کو جو اختیارات دیئے ہیں ہم نے انہیں بالکل نہیں چھیڑا بلکہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے تحت ہمیں جو اختیارات حاصل ہیں انہیں استعمال کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ آئین کی روح سے طاقت کسی ایک شخص کو نہیں دی جاسکتی اصل طاقت اس ایوان کی ہے۔

وزیر اعلی سندھ نے کہا کہ یہاں زیر بحث معاملے کے حوالے سے انہوں نے آج خصوصی طور پر سندھ کی تمام سرکاری جامعات کے وائس چانسلرز کو یہاں مدعو کیا جو مہمانوں کی گیلری میں موجود ہیں اور ایوان کی کارروائی دیکھ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ بالکل غلط تاثر ہے کہ سندھ اسمبلی کا اجلاس گورنر اپنی مرضی سے بلاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ گورنر صرف وزیر اعلی یا صوبائی حکومت کی سفارش پر سندھ اسمبلی کا اجلاس بلاسکتا ہے اس حوالے سے اس کا اپنا کوئی صوابیدی اختیار نہیں ہے دیگر امور میں بھی ان کی اسی نوعیت کی حیثیت ہے ۔

صوبائی وزیر پارلیمانی امور نثار احمد کھوڑو ، وزیر تعلیم سندھ جام مہتاب ڈاہر،وزیر بلدیات سید ناصر حسین شاہ ، پیپلز پارٹی کے ارکان اسمبلی ڈاکٹر سکندر شورو، مہیش کمار ملانی نے بھی وزیر اعلی سندھ کے موقف کی تائید کی جبکہ ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر سید سردار احمد نے کہا کہ سندھ حکومت کے آئینی اختیارات پر کسی کو اعتراض نہیں ہوسکتا لیکن مناسب یہ ہوگا کہ جب آپ نے میرٹ کی بنیاد پر وائس چانسلرز مقرر کردیئے تو پھر انہیں آزادی کے ساتھ کام کرنے دیں اور ان کے کام میں کوئی سیاسی مداخلت نہ کی جائے، ایم کیو ایم کے فیصل سبزواری نے کہا کہ سندھ کا پورا تعلیمی نظام انحطاط کا شکار ہے کاپی مافیا نے امتحانی عمل کو مذاق بنادیا ہے لیکن سندھ حکومت اس معاملے پر بے بس نظر آتی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت کو ہمیشہ اپنے اختیارات کی تو بہت زیادہ فکر ہوتی ہے اور اس حوالے سے وہ وفاق پر تنقید بھی کرتی ہے لیکن وہ بلدیاتی اداروں کو اختیارات اور وسائل مہیا کرنے میں ایسی دلچسپی کیوں نہیں دکھاتی۔ بحث میں تحریک انصاف کی ڈاکٹر سیما ضیا، مسلم لیگ فنکشنل کی مہتاب اکبر راشدی اور ایم کیوایم کے محمد حسین نے بھی حصہ لیا۔

محمد حسین کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ اچانک ایوان میں زیر غور لاکر ہمیں اتنا بھی موقع نہیں دیا گیا کہ سرکاری بلوں پر گورنر نے جو اعتراضات اٹھائے ہیں انہیں پڑھ سکیں ،حکومت سندھ کو اس معاملے پر دوبارہ غور کی اتنی جلدی کیوں ہے جس پر وزیر اعلی سندھ نے کہا کہ ہمیں کوئی عجلت نہیں ہے اس معاملے کو کل صبح تک موخر کیا جاسکتا ہے بعد ازاں وزیر اعلی سندھ کی سفارش پر اسپیکر نے اس معاملے پر مزید غور وخوض جمعہ تک موخر کردیا اور ایوان کی کارروائی بھی جمعہ کی صبح دس بجے تک ملتوی کردی گئی۔