پاکستانی تاجر بوسنیا سے بھرپور فائدہ اٹھائیں‘باہمی تجارت کے حجم میں اضافہ ناگزیر ہے، سفیر ثاقب فورک

برادرانہ تعلقات کی جھلک تجارت میں بھی نظر آنی چاہیے، ملک طاہر جاوید

پیر 9 اپریل 2018 20:25

پاکستانی تاجر بوسنیا سے بھرپور فائدہ اٹھائیں‘باہمی تجارت کے حجم میں ..
لاہور۔9 اپریل(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 09 اپریل2018ء)بوسنیا کے سفیر ثاقب فورک نے کہا ہے کہ بوسنیا ایک چھوٹا مگر ترقی یافتہ ملک اور یورپین یونین تک رسائی کا اہم ذریعہ ہے جس سے پاکستانی تاجروں کو فائدہ اٹھانا چاہیے، پاکستان ایک بے مثال ملک ہے جس نے بوسنیا کو فورا تسلیم کیا مگر صرف 30ملین ڈالر کی باہمی تجارت بہترین تعلقات کی عکاس نہیں۔

انہوں نے ان خیالات کا اظہار لاہور چیمبر کے صدر ملک طاہر جاوید، سینئر نائب صدر خواجہ خاور رشید اور ایگزیکٹو کمیٹی ممبران سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ بوسنیا کے اعزازی قونصل دانش اقبال، سپین کے اعزازی قونصل ظہیر شہزاد، سہیل لاشاری، میاں نواز و دیگر بھی موقع پر موجود تھے۔ سفیر نے کہا کہ پاکستان نے بوسنیا کے لیے وہی کچھ کیا جو ایک بھائی دوسرے کے لیے کرتا ہے مگر یہ برادرانہ تعلقات باہمی تجارت میں بھی نظر آنا چاہئیں۔

(جاری ہے)

انہو ںنے کہا کہ اس وقت صرف 37پاکستانی کمپنیاں بوسنیا میں کام کررہی ہیں، بوسنیا میں نئی کمپنی کے قیام پر پانچ سال کے لیے ٹیکس کی چھوٹ ہے، دیگر ممالک کی نسبت یہاں کاروبار شروع کرنا آسان ، بجلی کی قیمت اور ٹیکس یورپین یونین کی نسبت کم ہیں، پاکستانی تاجروں کو اس سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ لاہور چیمبر کے صدر ملک طاہر جاوید نے بھی اس سے اتفاق کیا کہ باہمی برادرانہ تعلقات کا اثر تجارت پر بھی پڑنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ لاہور چیمبر وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تجارت کے فروغ پر خاص توجہ دے رہا ہے، چین پاکستان اکنامک کاریڈور نے پاکستان کی اہمیت کئی گنا بڑھا دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بوسنیا کے تاجروں کو مضبوط تعلقات قائم کرنے چاہئیں تاکہ وہ ایک دوسرے سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئیں ۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارت پر بار کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان 2016ء میں باہمی تجارت کا حجم صرف 196ملین ڈالر تھا ، بوسنیا کی 9ارب ڈالر کی درآمدات میں پاکستان کا حصہ بہت کم ہے ۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ باہمی کوششوں سے دونوں ممالک کے درمیان تجارت و سرمایہ کاری کو فروغ حاصل ہوگا۔ انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی وفود کے تبادلے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔