بھارت مقبوضہ کشمیر میں بے گناہ کشمیری عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے،

کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے جس پر وہ زیادہ عرصہ غیر قانونی قبضہ اور تسلط برقرار نہیں رکھ سکے گا، کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دیئے بغیر خطے میں امن قائم نہیں ہو سکتا، برطانیہ، یورپی ممالک اور امریکہ میں کشمیر ڈیسک بنا کر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا جانا چاہئے، عالمی ضمیر کو جھنجوڑنے کے لئے حکومت مسئلہ کشمیر پر خصوصی نمائندہ مقرر کرے، ارکان سینیٹ کا اظہار خیال

پیر 9 اپریل 2018 19:16

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 09 اپریل2018ء) سینیٹ کے ارکان نے کہا ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں بے گناہ کشمیری عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے، کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے جس پر وہ زیادہ عرصہ غیر قانونی قبضہ اور تسلط برقرار نہیں رکھ سکے گا، ماضی کی حکومتیں اس مسئلہ پر اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہی ہیں، کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دیئے بغیر خطے میں امن قائم نہیں ہو سکتا، برطانیہ، یورپی ممالک اور امریکہ میں کشمیر ڈیسک بنا کر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا جانا چاہئے۔

عالمی ضمیر کو جھنجوڑنے کے لئے حکومت مسئلہ کشمیر پر خصوصی نمائندہ مقرر کرے۔ پیر کو ایوان بالا کے اجلاس میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و جبر کی مذمت کرتے ہوئے سینیٹر عطاء الرحمان نے کہا کہ بھارت ظلم و جبر کر رہا ہے اور ہم اس کی شدید مذمت کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

اس کے ساتھ ساتھ افغانستان میں قندوز میں ایک مدرسہ پر بھی بمباری کر کے معصوم بچوں کو شہید کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ کے خلاف بھی مذمت کی قرارداد اس ایوان میں منظور ہونی چاہئے جس نے ظلم، بربریت اور دہشت گردی کے ذریعے بے گناہ اور معصوم بچوں کا قندوز میں خون بہایا ہے۔ سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر خطے میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کے لئے عملی اقدامات ہونے چاہئیں۔ سینیٹر رانا مقبول نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و جبر کی دنیا کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔

سینیٹر سسی پلیجو نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے عالمی برادری کے ضمیر کو جھنجوڑنے کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق یہ مسئلہ حل ہونا چاہئے۔ سینیٹر محمد علی سیف نے کہا کہ ایسے بین الاقوامی قوانین موجود ہیں جن کے تحت ہم بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں ظلم و جبر کو ختم کرانے کے لئے رجوع کر سکتے ہیں۔ سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ بھارت بے گناہ کشمیریوں کا خون بہا رہا ہے۔

بھارتی وزیراعظم مودی مسلمانوں کی خون ریزی کا ذمہ دار ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے پاکستان کو عالمی سطح پر بھرپور طریقے سے آواز اٹھانی چاہئے۔ سینیٹر مظفر حسین شاہ نے کہا کہ بھارتی بربریت اور ظلم و جبر کو روکنے کے لئے سفارتی اور سیاسی ذرائع استعمال کئے جانے چاہئیں۔ چوہدری سرور نے کہا کہ پاکستان کے 20 کروڑ عوام کشمیریوں کے ساتھ ہیں۔

کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے۔ سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا کہ عالمی برادری کشمیریوں کو حق خودارادیت دلانے کے لئے بھارت پر دبائو ڈالے۔ کشمیری جدوجہد آزادی کی نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ پورے ایوان کی کمیٹی بنا کر بھارت کو ظلم و جبر سے روکنے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ سینیٹر ستارہ ایاز نے کہا کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر پر خصوصی نمائندہ مقرر کرے۔

سفارتی ذرائع سے اس مسئلہ کے حل کے لئے آواز اٹھانی چاہئے۔ سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ کشمیر کا معاملہ قومی اتحاد کی علامت ہے۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد ہونے والے اجلاس میں جو تجاویز اور سفارشات مرتب کی گئی تھیں ان کی روشنی میں آگے بڑھنا چاہئے۔ سینیٹر نعمان وزیر نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ سینیٹر ساجد میر نے کہا کہ ماضی کی حکومتیں اس مسئلہ پر انصاف کرنے میں ناکام رہیں۔

کشمیریوں کی چوتھی نسل بھارت کا ظلم و جبر برداشت کر رہی ہے۔ استصواب رائے سب سے بنیادی معاملہ ہے۔ اس کے لئے عالمی ضمیر کو جھنجوڑنا پڑے گا۔ سینیٹر عبدالقیوم نے کہا کہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے وہ دن دور نہیں جب کشمیری بھارت کے تسلط سے آزادی حاصل کرلیں گے۔ برطانیہ، یورپی ممالک اور امریکہ میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے موثر طریقے سے آواز اٹھانے کے لئے ڈیسک بنانے کی ضرورت ہے۔

سینیٹر انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ کشمیر ہماری روح اور جسم کا حصہ ہے۔ کشمیریوں کو ان کا حق دلائے بغیر پاکستان کے عوام چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ سینیٹر احمد خان نے کہا کہ کشمیریوں پر ہونے والا ظلم و جبر عالمی ضمیر کے لئے ایک سوالیہ نشان ہے۔ بھارت کشمیریوں کو طاقت کے زور پر زیادہ عرصہ دبا کر نہیں رکھ سکتا۔ سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم اور ظلم و بربریت عروج پر ہے۔ ہمیں دیکھنا چاہئے کہ امت مسلمہ اور دیگر اسلامی ممالک ہمارے لئے کیا کر رہے ہیں۔ کسی طرف سے ہمیں کشمیر میں ہونے والے ظلم پر کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی۔ ہمیں بھی اب اپنی قومی سلامتی پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہئے اور اپنی ترجیحات کا نئے سرے سے تعین کرنا چاہئے۔