چیئرمین قائمہ کمیٹی ایف پی سی سی آئی خالد جہانگیر بٹ کا سٹیل پائپ انڈسٹری کی بہتری کیلئے کسٹم ایکٹ اور سیلز ٹیکس و انکم ٹیکس پالیسیوں میں ترمیم کا مطالبہ

پیر 9 اپریل 2018 18:15

چیئرمین قائمہ کمیٹی ایف پی سی سی آئی خالد جہانگیر بٹ کا سٹیل پائپ انڈسٹری ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 09 اپریل2018ء)فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری(ایف پی سی سی آئی) کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین خالد جہانگیر بٹ نے صنعتی شعبے کی بہتری کیلئے کسٹم ایکٹ اور سیلز ٹیکس و انکم ٹیکس کے حوالے سے پالیسیوں میں ترمیم لانے کا مطالبہ کردیا ہے۔انہوں نے یہ مطالبہ ممبر کسٹمز فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور ممبر پالیسی فیڈرل بورڈ آف ریونیو اسلام آباد کے نام لکھے گئے علیحدہ علیحدہ خطوط میں کیا ہے۔

کسٹم ایکٹ کے حوالے سے پاکستان کے اندر کام کرنے والی سٹیل پائپ انڈسٹری کو درپیش مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے خالد جہانگیر بٹ نے کہا ہے کہ سٹیل درآمدات کیلئی12.50فیصد کی شرح پر ریگولیٹری ڈیوٹی قابل عمل ہے۔6فیصد کسٹم ڈیوٹی کے اطلاق سے مجموعی طور پر 18.5فیصد تک پہنچ جاتا ہے جبکہ تمام صنعتوں کا 8فیصد سے کم ایس آر او665کے تحت فوائد حاصل کر رہی ہیں ،جنکی زیرو ڈیوٹی ہے جس سے ان درآمد کنندگان کیلئے میٹریل کی قیمت کم ہوجاتی ہے،دیگر برآمد کنندگان کو اپنا کاروبار چلانے کے لئے شرح میں کمی لانا پڑتی ہے جن کی قیمت میں 25فیصد یا اس سے زائد اضافہ ہوجاتا ہے۔

(جاری ہے)

چند ایک کمپنیاں پہلے ہی بند ہوچکی ہیں،اگر چھوٹی صنعتیں ایس آر او کا فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہیں تو ایسی ضروریات ہیں جن پر وہ پورا نہیں اترتیں جو کہ دوسری صنعت کیلئے موت کے مترادف ہے کیونکہ وہ استثنیٰ کی حامل اشیاء کی شرح سے مقابلہ نہیں کرسکتیں لہٰذا آپ سے درخواست کی جاتی ہے کہ تمام برآمد کنندگان اور صنعتکاروں کے لئے قانون ایک ہی ہونا چاہئے تاکہ وہ مارکیٹ میں دوسروں کے ساتھ مقابلہ کرسکیں۔

مزید برآں ریگولیٹری ڈیوٹی کا اطلاق سٹیل کی شرح کو معیاری بنانے کے لئے تھا جو کہ عالمی مارکیٹ کے مقابلے میں بہت کم تھا لہٰذا مقامی صنعت کو شاید فائدہ پہنچے اور عالمی مارکیٹ میں مقابلہ کرسکیں۔ایک فیصد اضافی کسٹم ڈیوٹی درآمد کے وقت عائد کی گئی ہے جو کہ غیر ضروری ہے کیونکہ فی اشیاء کے حساب سے مختلف شرحوں پر کسٹمز ڈیوٹیز ادا کی جاتی ہیں لہٰذا سٹیل مارکیٹ کے مزید ابھرنے کے لئے اضافی ڈیوٹی واپس لینے کی سفارش کی جاتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا ہے کہ حکومت کے اقدامات تمام صنعتوں کے تحفظ کیلئے ہونے چاہئیں بجائے اس کے کہ بڑے سائز کی صنعتوں کو صرف فوائد یا تحفظ پہنچایا جائے لہٰذا قوانین تمام صنعتوں کے لئے ایک جیسے ہونے چاہئیں۔خالد جہانگیر بٹ کی طرف سے ممبر پالیسی ایف بی آر کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ سیلز ٹیکس کے حوالے سے ہماری صنعتوں کے مختلف شعبہ جات کی جانب سے مختلف فورمز پر یہ بات اجاگر کی گئی ہے کہ سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 کے سیکشن 3،سب سیکشن 18کے تحت اشیاء کی فروخت کیلئے 2فیصد ٹیکس غیر رجسٹرڈ افراد کے لئے مکمل طور پر ناانصافی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رجسٹرڈ افراد کے لئے سیلز ٹیکس ادائیگی کی شرح کیا ہے،ایک ایسا شخص جو صنعتی شعبے کے اندر کام کرنے کی کوشش کر رہا ہے،اسے اپنی قیمت کم کرنے کے لئے رجسٹرڈ افراد کی طرف دیکھنا ہوگا،یہ چیز ناممکن ہے کیونکہ زیادہ تر ہول سیلز اور ڈسٹیبیوٹرز غیر رجسٹرڈ ہیں اور کوئی سیلز ٹیکس ادا نہیں کررہے،مزید برآں سخت مقابلہ سازی اور سخت مارکیٹ صورتحال کی وجہ سے ہمارا سٹیل پائپ سیکٹر 2.3فیصد مارجن کے اندر کام کر رہا ہے،لہٰذا دو فیصد کی شرح سے مزید ٹیکس ادا کرنا ہماری اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بنے گا اور مارکیٹ میں ہمارے لئے مشکلات درپیش ہوں گی ۔

لہٰذا درخواست کی جاتی ہے کہ آئندہ بجٹ میں اس قیمت میں کمی کے حوالے سے تجویز لائی جانی چاہئے۔انکم ٹیکس کے حوالے سے یہ بات زیر بحث رہی ہے کہ سیکشن 236Gاور236Hپر عملدرآمد کیا جانا چاہئی۔