کاروباری ادارے اور شخصیات پانی جیسے قیمتی اثاثے کے تحفظ کیلئے درمیانی اور طویل المدتی پالیسیاں اختیار کریں‘اے سی سی اے

پیر 9 اپریل 2018 18:01

کاروباری ادارے اور شخصیات پانی جیسے قیمتی اثاثے کے تحفظ کیلئے درمیانی ..
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 09 اپریل2018ء) ایسوسی ایشن آف سرٹیفائیڈ چارٹرڈ اکائونٹنٹس (اے سی سی ای) نے ملک کے کاروباری طبقے پر زو ردیا ہے کہ وہ ملک میں پانی کی قلت کے مسئلہ پر قابو پانے کے لئے کردار ادا کریں۔ دنیا کے کثیر الجہتی ترقیاتی اداروں اور ممتاز غیر سرکاری تنظیموں کی مختلف رپورٹس کے مطابق پاکستان کو اپنی ترقی اور پائیدار استحکام کے لئے پانی کی قلت کا سامنا ہے۔

جب تک پانی کے ذخائر میں اضافہ اور پانی کے اثاثے کو محفوظ کرنے کے لئے فوری اقدامات نہیں کئے جائیں گے، بڑھتی ہوئی شہری آبادیوں، صنعتوں اور آبادی میں اضافے کی وجہ سے پانی کا ذخیرہ تیزی کے ساتھ کم ہوتا جائے گا۔ یہ انتہائی قابل توجہ معاملہ ہے کیونکہ صاف پانی اور صفائی ستھرائی کے معاملہ کو اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے 17 ویں اہداف میں چھٹے نمبر پر رکھا گیا ہے۔

(جاری ہے)

عالمی یوم آب کے موقع پر اے سی سی اے نے کاروباری شخصیات پر زور دیا ہے کہ وہ پانی کے انتظام اور بچت کے لئے سنجیدہ اور پائیدار حکمت عملی اختیار کرے۔ اے سی سی اے کو یقین ہے کہ پانی ایک قدرتی اثاثہ ہے اس کو محفوظ بنانا اور کفایت شعاری سے استعمال ضروری ہے۔ کاروباری شخصیات کی ذمہ داری ہے کہ وہ پانی کو محفوظ بنانے اور مستقبل کے لئے اس کی اہمیت پیدا کرنے کے حوالے سے اپنا کردار ادا کریں۔

یہ سوال کہ پانی کاروبار کے لئے خام مال کی حیثیت رکھتا ہے کہ نہیں یہ ایک پیشہ ورانہ نوعیت کا معاملہ ہے لیکن سب سے پہلے ہمیں تین اہم شعبوں پر غور کرنا ہوگا جن میں وہ معاملات شامل ہیں جن کے پانی جیسے قدرتی اثاثے کے حوالے سے متعلق تنظیموں کے ماحولیاتی اور سماجی اثرات ہیں اور این جی اوز اور ایسی مقامی کمیونٹیز جن کو پانی کے مسئلہ کے حوالے سے تشویش ہے انہیں اس معاملے کا جائزہ لینے کے عمل میں شریک کیا جانا چاہئے اور اس حوالے سے معاملات پر قابو پانے کے لئے درمیانی اور طویل المدتی حکمت عملی کو شامل کرنا ہوگا۔

اے سی سی اے MENASA کے لئے ہیڈ آف پالیسی عارف مسعود مرزا نے لاہور آف چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں پاکستان بزنس کونسل کے سینٹر آف ایکسیلنس اینڈ رسپانسبلٹی بزنس (سی ای آر بی) کے زیر اہتمام منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اے سی سی اے پانی کے معاملہ کے حوالے سے مربوط سوچ اور رپورٹنگ کی پرجوش حامی ہے۔ ہم کاروباری رہنمائوں سے کہتے ہیں کہ وہ کاروبار کے لئے پانی کی اہمیت پر غور کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی مالیاتی، انسانی اور سماجی اہمیت کو بھی دیگر کاروباری اثاثوں کی طرح مدنظر رکھیں۔

اس وقت پاکستان کی پانی کی فراہمی کی حکمت عملی آبی ذخائر، دریائوں کے انتظام اور گلیشیئر پگھلنے پر مبنی ہے لیکن سندھ طاس معاہدے کو کمزور علاقائی تعلقات اور پانی کے انتظام کی پالیسیوں میں کم حکومتی سرمایہ کاری کا سامنا ہے۔ زرعی اور غیر زرعی دونوں طرح کے کاروباری ماڈلز کو مستقبل سے ہم آہنگ کرنے کے لئے اختیار کرنا ہوگا۔ اے سی سی اے اپنی رپورٹ میں پائیدار ترقی کے اہداف کو نئے سیاق و سباق، خطرات اور مواقع تصور کرتی ہے۔

متعلقہ عنوان :