پیغام پاکستان اعلامیہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف پاکستان کا واضح موقف ہے،

دنیا بھر میں پیغام پاکستان اعلامیہ کو سراہا گیا ہے، دہشت گردی اور انتہا پسندی پر قابو پانے کے لئے سخت معاشی قوانین اور نگرانی ضروری ہے، اسلام کسی صورت کسی پر تشدد کے حق میں نہیں، قوانین کا براہ راست اثر معیشت پر ہوتا ہے، جہاد ریاست کی ذمہ داری ہے اور ریاست ہی جہاد کا اعلان کر سکتی ہے، خود کش حملے حرام ہیں مقررین کا ’’متصادم معیشیت کی حرکیات اور پاکستان پر اس کے اثرات‘‘ کے موضوع پر سیمنار سے خطاب

پیر 9 اپریل 2018 17:13

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 09 اپریل2018ء) پیغام پاکستان اعلامیہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف پاکستان کا واضح موقف ہے، دنیا بھر میں پیغام پاکستان اعلامیہ کو سراہا گیا، دہشت گردی اور انتہا پسندی پر قابو پانے کے لئے سخت معاشی قوانین اور نگرانی ضروری ہے، اسلام کسی صورت کسی پر تشدد کے حق میں نہیں، قوانین کا براہ راست اثر معیشت پر ہوتا ہے، جہاد ریاست کی ذمہ داری ہے اور ریاست ہی جہاد کا اعلان کر سکتی ہے، خود کش حملے حرام ہیں۔

ان خیالات کا اظہار مقررین نے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (پائیڈ) کے زیر اہتمام اور وزارت دفاع کے تعاون سے ’’متصادم معیشیت کی حرکیات اور پاکستان پر اس کے اثرات‘‘ کے موضوع پر سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

سیمینار سے ایوان صدر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر کاشف محمود، ڈاکٹر سردار معظم، ماہر قانون احمد بلال صوفی اور پائیڈ کے چیئرمین ڈاکٹر عثمان مظفر نے خطاب کیا۔

سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر کاشف محمود نے ’’پیغام پاکستان‘‘ کانفرنس، متفقہ اعلامیہ اور اس کے مقاصد کے حوالے سے بتاتے ہوئے کہا کہ پاکستان دنیا کا پہلا ملک ہے جس نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف متفقہ اعلامیہ جاری کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر دشمن آپ کے سامنے ہو تو اس کا مقابلہ آسان ہو جاتا ہے لیکن دہشت گردی اور انتہا پسندی میں آپ کا دشمن آپ کے درمیان ہوتا ہے اور اس صورت میں اس کا مقابلہ کرنا انتہائی سخت اور مشکل ہو جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پیغام پاکستان اعلامیہ تمام مکاتب فکر، جید علماء کے اتفاق سے جاری کیا گیا اور اس پر غیر مسلم اقلیتوں کو بھی اعتماد میں لیا گیا جبکہ اسلامی یونیورسٹی میں منعقدہ 40 سے زائد یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز نے بھی اس میں اپنی رائے دی۔ انہوں نے کہا کہ پیغام پاکستان اعلامیہ کو دنیا بھر میں سراہا جا رہا ہے اور یہ پاکستان کی جانب سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف ایک بڑا اقدام ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس میں واضح طور پر خود کش حملوں کو حرام اور جہاد کو ریاست کی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ جہاد کا اعلان صرف ریاست ہی کر سکتی ہے۔ ڈاکٹر کاشف محمود نے کہا کہ اختلاف رائے آگے بڑھنے کے لئے انتہائی ضروری ہوتا ہے لیکن اختلاف رائے کا یہ مطلب نہیں کہ ہم کسی کے جان کے دشمن ہو جائیں۔ انہوں نے کہا کہ پیغام پاکستان اعلامیہ کو ایران اور افغانستان بھی بھیجا گیا جبکہ امام کعبہ کے دورہ پاکستان کے موقع پر یہ اعلامیہ ان کے سامنے رکھا گیا جس پر انہوں نے یہ الفاظ ادا کئے ’’میرے لئے یہ بات قابل فخر ہے کہ میں امن کے لئے تیار ہونے والی دستاویز کا حصہ بن رہا ہوں‘‘۔

انہوں نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہمیں اپنے مسائل کے حل کے لئے گفت و شنید سے کام لینا ہو گا۔ اس موقع پر ڈاکٹر سردار معظم نے کہا کہ دہشت گردی کے معاشیات سے گہرے روابط ہیں، دہشت گردوں کی مالی امداد روک کر اس پر قابو پایا جا سکتا ہے، اس کے لئے ہمیں اپنے ریگولیٹری قوانین اور ریگولیٹری ٹیکنالوجی کو بہتر بنانا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اس کے لئے بے شمار اقدامات کئے ہیں جس کو عالمی سطح پر سراہا گیا۔

انہوں نے کہا کہ غیر دستاویزی معیشت اور خیرات بھی دہشت گردوں کی آمدن کا ایک ذریعہ ہے اور یہ دونوں چیزیں ان کی مالی امداد روکنے میں ایک رکاوٹ بھی سمجھی جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا شمار بھی دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں لوگ سب سے زیادہ خیرات کرتے ہیں اور یہ خیرات غلط ہاتھوں میں بھی جانے کا اندیشہ رہتا ہے جو ایک بڑا چیلنج ہے۔

ڈاکٹر سردار معظم نے کہا کہ حال ہی میں وجود میں آنے والی الیکٹرانک اکانومی بھی دہشت گردوں کی مالی امداد کا ایک بڑا ذریعہ بن سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بٹ کوئین جیسی اس اکانومی کو پاکستان اور بھارت نے پابندی لگا دی ہے جبکہ یورپی ممالک بھی اس پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں جبکہ روایتی بینکنگ کو بھی قوانین کا پابند بنانے کے لئے سختی کی جا رہی ہے۔

ماہر قانون احمد بلال صوفی نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہر قانون کا اثر معیشت پر ہوتا ہے، اگر آپ ہر چیز کو قانون کی آنکھ سے دیکھیں گے تو آپ کو اس میں معاشی مواقع ملیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ایک اچھا معیشت دان ہونے کے لئے ہمیں ملکی اور غیر ملکی قوانین کے بارے میں علم ہونا چاہیے، طالبان اور القاعدہ جیسی بہت سی دہشت گرد تنظیموں پر بین الاقوامی سطح پر پابندی ہے اور اس پابندی کی وجہ سے ان کے ساتھ قانونی طور پر لین دین نہیں کیا جا سکتا ہے اور جو بھی ادارہ ایسا کرے گا تو اس پر پابندی لگ سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پیغام پاکستان دور حاضر کا ایک بڑا سنگ میل ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ضروری تھا کہ ریاست اس کے بارے میں واضح موقف ظاہر کرے، یہ پیغام پاکستان اعلامیہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف پاکستان کا ایک واضح موقف ہے، پاکستان پہلی ریاست ہے جس نے اس قدر واضح موقف ظاہر کیا۔ اب دنیا کے دیگر ممالک نہ صرف پیغام پاکستان اعلامیہ کو سراہ رہے ہیں بلکہ وہ بھی اسی طرح کی دستاویز کی تیاری پر بھی کام کر رہے ہیں اور یہ دستاویز ان کے لئے انتہائی مددگار ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے مسائل کا حل تحقیق میں ہے اور ہمیں دنیا کو اپنا موقف سمجھانے کے لئے دلائل سے بات کرنا ہو گی۔ اس موقع پر پائیڈ کے چیئرمین ڈاکٹر عثمان مظفر نے کہا کہ جس طرح کوئی برائی یا مسئلہ آہستہ آہستہ بڑھتا ہے اسی طرح اس کو کم کرنے میں بھی وقت لگتا ہے اور اس پر مرحلہ وار قابو پایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ معیشت ہر جگہ اہم ہوتی ہے، اگر ہم پاکستان کی جغرافیائی حیثیت کو دیکھیں جہاں اس کو بہت سے فائدے حاصل ہیں تو وہاں اس کے نقصانات بھی ہیں، ہمارے کچھ ہمسائے یہ نہیں چاہتے کہ پاکستان مضبوط ہو، پاکستان کی آبادی کا 64 فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے جہاں یہ اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے وہاں یہ ایک بڑا چیلنج بھی ہے، اگر ہم ان نوجوانوں کو بہتر تعلیم اور روزگار فراہم نہیں کرتے تو یہ کسی بھی غلط ہاتھ لگ سکتے ہیں اور کوئی انہیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر سکتا ہے، حکومت نوجوانوں کو بہتر تعلیم اور روزگار فراہم کرنے کے لئے مختلف اقدامات کر رہی ہے جو کہ حوصلہ افزاء ہے۔

متعلقہ عنوان :