سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں بلوچستان میں صحت ،تعلیم اور پانی کی قلت کی صورتحال سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت

وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو عدالت میں پیش، سابق وزرائے اعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کل صبح عدالت میں طلب کیا صحت، تعلیم اور پانی کی قلت کے حوالے سے کوئی پالیسی موجود نہیں، زیر زمین واٹر ٹیبل کو بہتر بنانے کے لیے کیا اقدامات اٹھائے گئے ہیں، کل صبح تک صوبے کے مسائل اور ان کے حل کے لیے تجاویز پیش کی جائیں، بتایا جائے کہ گزشتہ چا ر سالوں میں کیا کام کئے گئے ہیں، سرکاری ہسپتالوں کی او پی ڈیز میں اگر ڈاکٹرز اور پیرامیڈکس ہڑتال پر ہیں تو مریضوں کو کون دیکھے گا، سرکاری ہسپتالوں میں کتنے آئی سی یو اور کتنے وینٹلیٹرز کام کررہے ہیں، صحت کے شعبہ میں وفاق سے جو مدد چاہیے، ہمیں بتایا جائے، چاہتے ہیں کہ میڈیکل اسٹوڈنٹس کو 8لاکھ روپے 56ہزار روپے سے زائد فیس ریفنڈ کی جائے، ماضی کو چھوڑ کر آگے بڑھیں، بلوچستان کو کیوں ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا ہے، چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے ریمارکس

پیر 9 اپریل 2018 16:10

کوئٹہ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 09 اپریل2018ء) سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں بلوچستان میں صحت ،تعلیم اور پانی کی قلت کی صورتحال سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کیا صحت، تعلیم اور پانی کی قلت کے حوالے سے کوئی پالیسی موجود نہیں، زیر زمین واٹر ٹیبل کو بہتر بنانے کے لیے کیا اقدامات اٹھائے گئے ہیں، کل صبح تک صوبے کے مسائل اور ان کے حل کے لیے تجاویز پیش کی جائیں، بتایا جائے کہ گزشتہ چا ر سالوں میں کیا کام کئے گئے ہیں، سرکاری ہسپتالوں کی او پی ڈیز میں اگر ڈاکٹرز اور پیرامیڈکس ہڑتال پر ہیں تو مریضوں کو کون دیکھے گا، سرکاری ہسپتالوں میں کتنے آئی سی یو اور کتنے وینٹلیٹرز کام کررہے ہیں، صحت کے شعبہ میں وفاق سے جو مدد چاہیے، ہمیں بتایا جائے، چاہتے ہیں کہ میڈیکل اسٹوڈنٹس کو 8لاکھ روپے 56ہزار روپے سے زائد فیس ریفنڈ کی جائے، ماضی کو چھوڑ کر آگے بڑھیں، بلوچستان کو کیوں ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو عدالت میں پیش ہوئے جبکہ سابق وزرائے اعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کل صبح عدالت میں طلب کر لیا گیا۔بلوچستان میں صحت ،تعلیم اور پانی کی قلت کی صورتحال سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت پیر کو سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس سید سجاد علی شاہ اور جسٹس سید منصور علی شاہ پر مشتمل تین رکنی بینج نے کی۔

دوران سماعت کے سپریم کورٹ نے عوامی مسائل پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے بلوچستان کے سابق وزرائے اعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو کل صبح عدالت میں طلب کرلیا۔ عوامی مسائل پر ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 199 اور 184 کے تحت عدالت کو بنیادی حقوق کے استحصال پر مداخلت کا حق حاصل ہے۔ ،وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔

چیف جسٹس نے وزیراعلیٰ سے استفسار کیا کہ کیا صحت، تعلیم اور پانی کی قلت کے حوالے سے کوئی پالیسی موجود نہیں۔ وزیر اعلیٰ میرعبدالقدوس بزنجو نے عدالت کو بتایا کہ بنیادی سہولتوں کی فراہمی پر توجہ دے رہے ہیں، پبلک سیکٹر آرٹیکل 25-A کے تحت تعلیم ہر بچے کا حق ہے۔ چیف جسٹس نے کوئٹہ اور بلوچستان میں زیر زمین پانی کی سطح ہزار فٹ سے گہری ہونے کی شکایات پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے چیف سیکرٹری بلوچستان سے استفسار کیا کہ واٹر ٹیبل کو بہتر بنانے کے لیے کیا اقدامات اٹھائے گئے ہیں، کل صبح تک صوبے کے مسائل اور ان کے حل کے لیے تجاویز پیش کی جائیں، بتایا جائے کہ گزشتہ چا ر سالوں میں کیا کام کئے گئے ہیں، منگی ڈیم کوئٹہ صرف 25 فیصد ضرورت پوری کرسکتا ہے، 75 فیصد کے لیے کیا کام کیا گیا ہے۔

طبی سہولتوں کے حوالے سے سیکرٹری ہیلتھ کے جواب پر عدالت نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری ہسپتالوں کی او پی ڈیز میں اگر ڈاکٹرز اور پیرامیڈکس ہڑتال پر ہیں تو مریضوں کو کون دیکھے گا۔ چیف جسٹس نے سیکرٹری ہیلتھ سے کہا کہ بتایا جائے کہ سرکاری ہسپتالوں میں کتنے آئی سی یو اور کتنے وینٹلیٹرز کام کررہے ہیں، صحت کے شعبہ میں وفاق سے جو مدد چاہیے، ہمیں بتایا جائے۔

میڈیکل کالجز کی صورتحال پر چیف جسٹس نے کہا کہ میڈیکل کے طلبہ سے 20 سے 25 لاکھ روپے وصول کئے جارہے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ میڈیکل اسٹوڈنٹس کو 8لاکھ روپے 56ہزار روپے سے زائد فیس ریفنڈ کی جائے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے مزید کہا کہ بلوچستان ہمارے لیے انتہائی اہم ہے، سرکاری ہسپتالوں کی او پی ڈیز بند ہونا حیران کن ہے، ہم چاہتے ہیں کہ سستے اور بہتر علاج کی سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائی جائے، ماضی کو چھوڑ کر آگے بڑھیں، بلوچستان کو کیوں ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا ہے۔

چیف جسٹس نے سانحہ سول ہسپتال میں شہید ہونے والے وکلاء کے کیسز کو بھی ساتھی وکلاء میں تقسیم کرنے کی ہدایت کی تاکہ سائلین کو ریلیف یقینی بنایا جائے۔ ایڈووکیٹ کامران مرتضیٰ نے مقدمات کی پیروی کے لیے وکلاء کی طرف سے یقین دہانی کروائی۔