بلوچستان میں صحت، تعلیم اور پانی کی قلت کی صورتحال سے متعلق از خود نوٹس کیس

کیا صحت ،تعلیم، پانی کی قلت کے حوالے سے کیا کوئی پالیسی موجود ہی چیف جسٹس کا وزیراعلیٰ بلوچستان سے استفسار بنیادی سہولتوں کی فراہمی پر توجہ دے رہے ہیں بلوچستان میں گورننس کے لئے تین وزرائے اعلیٰ آئے انہوں نے عوام کے لیے کیا کیا عبدالقدوس بزنجو

پیر 9 اپریل 2018 16:00

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 09 اپریل2018ء) بلوچستان میں صحت، تعلیم اور پانی کی قلت کی صورتحال سے متعلق از خود نوٹس کیس سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سر براہی میں تین رکنی بینچ نے کی بینچ میں جسٹس سید سجاد علی شاہ اور جسٹس سید منظور علی شاہ تھے عدالت نے سماعت کے دوران عوامی مسائل پر برہمی کا اظہار کر تے ہوئے بلوچستان کے سابق وزراء اعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو آج عدالت میں طلب کر لیا عوامی مسائل پر ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار ہے کہ آئین کے آرٹیکل199 اور 184 کے تحت عدالت کو بنیادی حقوق کے استحصال پر مداخلت کا حق حاصل ہے وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجوبھی عدالت کے رو برو پیش ہوئے چیف جسٹس نے وزیراعلیٰ سے استفسار کیا کہ کیا صحت ،تعلیم، پانی کی قلت کے حوالے سے کیا کوئی پالیسی موجود ہی وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو نے عدالت کو بتایا کہ بنیادی سہولتوں کی فراہمی پر توجہ دے رہے ہیں بلوچستان میں گورننس کے لئے تین وزرائے اعلی آئے انہوں نے عوام کے لیے کیا کیا یہاں آکر بتائیں کوئٹہ میں سرکاری اسپتالوں، اسکولوں اور کالجوں کی حالت زار سے متعلق کیس کی سماعت کی جو عوامی شکایات پر کی گئی۔

(جاری ہے)

کیس کی سماعت کے سلسلے میں چیف سیکریٹری، سیکریٹری صحت، سیکریٹری تعلیم اور دیگرحکام عدالت میں پیش ہوئے جب کہ ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان رف عطا نے صوبائی حکومت کی جانب سے کیسز کی پیروی کی دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے میڈیکل کالجز معیاری نہیں، نجی کالجوں میں بچوں سے 20 سے 25 لاکھ روپے لییجاتے ہیں، ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ وہاں یہ بزنس تو نہیں ہے، ہماری کوشش ہیکہ 2 کروڑ بچوں کو رقم واپس ہو چیف جسٹس نے میڈیکل کالج کے لیے 8 لاکھ 56 ہزار سے زائد فیس ری فنڈ کرنے کا حکم دیا اسپتالوں کی حالت زار سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے چیف سیکریٹری سے استفسار کیا کہ حکومتی اسپتالوں کی حالت زار کیسی ہے، ہم نے اس سے متعلق بھی ایس او پی دی ہے، میں کچھ اسپتالوں کا دورہ بھی کرنا چاہوں گا، بلوچستان ہمارے لئے بہت اہمیت رکھتا ہے سیکریٹری صحت نے عدالت کو بتایا کہ مریضوں کا کوئی علاج نہیں کررہاصحت نے مزید بتایا کہ 21 فیصدنان ڈیولیپمنٹ بجٹ ہے اور صرف 6 فیصد ترقی پر خرچ ہوتا ہے، بلوچستان میں کوئی پرائیویٹ اسپتال نہیں، ایک کالج ملٹری میڈیکل بورڈ کے زیر انتظام ہے سیکریٹری صحت کی بریفنگ پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 18 ویں ترمیم کے بعد وسائل صوبوں نے پیدا کرنے ہیں،آپ وفاق کی طرف دیکھ رہے ہیں جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ بلائیں ان وزرائے اعلی کو جو یہاں 4 سال اقتدار میں رہے، صوبے کے عوام کے لیے انہوں نے کیا کیا یہاں آکر بتائیں، گورننس کے لئے 3 وزرائے اعلی آئے، انہوں نے کیا کیا عدالت نے آج سابق وزرائے اعلی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور نواب ثنااللہ زہری کوطلب کرلیا چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ صحت کامسئلہ بلا بن گیا ہے، ممکن نہیں کہ 500 ارب روپے ایک دن میں مل جائیں، اس کو ڈنگ ٹپا پالیسی کے طور پر نہ لیں، اپنی خامیوں کودور کرنے کے لیے مختصر اور طویل مدتی پالیسیاں بنائیں، پالیسی ابھی منظور نہیں ہوئی، ماضی کی بجائے آگے دیکھیں اور مسئلہ حل کریںچیف جسٹس نے چیف سیکریٹری بلوچستان سے مکالمہ کیاکہ حکومت کے پاس چندہفتے باقی رہ گئے ہیں، پھر کون پالیسی منظور کرے گا ہمارا مقصد اکھاڑ پچھاڑ کرنا نہیں، ضرورت ہے کہ عوام کو سہولت ملے، آئین نے ہمیں پابند کردیا ہے کہ عوام کے بنیادی حقوق کیلئے اپنا فرض نبھائیں۔

جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ کراچی میں پانی کے مسئلے پر وفاق نے ہمارے نوٹس کے بعد فنڈز دیئے، مسئلہ حل ہوگیا۔