میڈیا وار:انسان بدترین معاشی اور ذہنی غلامی کا شکار‘کیا یہ دجالی فتنے کا نکتہ آغازہے؟-اردوپوائنٹ کے سنیئر ایڈیٹرمیاں محمد ندیم کی فکر انگیزتحریر

Mian Nadeem میاں محمد ندیم ہفتہ 31 مارچ 2018 13:26

میڈیا وار:انسان بدترین معاشی اور ذہنی غلامی کا شکار‘کیا یہ دجالی فتنے ..
لاہور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین ۔31مارچ۔2018ء)سماجی رابطوں کی ویب سائٹس ہماری زندگیوں کا جزلازم بن چکی ہیںمگر ان کے ذریعے ہونے والا پراپیگنڈہ ہماری نوجوان نسل کی تخلیقی صلاحیتوں کو تباہ کررہا ہے‘سوشل میڈیا استعمال کرنے والا ہر دوسرا شخص شدید ذہنی تناﺅ اور ڈپریشن کا شکار ہورہا ہے جس کی وجہ وہ احساس محرومی ہے جو دوسروں کو دیکھ کر اس کے اندر جڑیں پکڑتا ہے -ڈیجیٹل میڈیا کا تعمیری کردادار کم ہوتا جارہا ہے جبکہ تخریبی کردارمیں دن بدن اضافہ ہورہا ہے جس طرح الیکٹرانک میڈیا میں ریٹنگ اور کمرشل ازم کی ریس نے بنیادی انسانی اقدار اور روایات کو بری طرح کچلا ہے ڈیجیٹل میڈیا زیادہ سے زیادہ صارفین کی توجہ پانے کے لیے الیکٹرانک میڈیا سے بھی دوہاتھ آگے نکل گیا ہے- سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا ہمیں دکھاتا ہے کہ ہر دوسرا انسان ہمیں اپنے سے زیادہ پرفیکٹ اور بھرپور زندگی گزار رہا ہے، حالانکہ وہ اپنی زندگی میں رونماہ ہونے والے چند خوشی کے لمحات کو ہمارے ساتھ شئیر کرتا ہے جس سے ہمارے اندر یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ شاید سب کی زندگیاں خوشیوں سے بھرپور اور مکمل ہیںحالانکہ حقائق اس کے برعکس ہیں حکومتیں ‘کمپنیاں‘کاروباری ادارے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے میڈیا ٹولزکا بے رحمانہ استعمال کررہے ہیں ۔

(جاری ہے)

پراپیگنڈہ کے ذریعے عام انسانوں کی نفسیات کے ساتھ کھیلا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آج کا انسان معاشی طور پر بدترین غلامی کا شکار ہوکررہ گیا ہے ‘آج میڈیا طے کرتا ہے کہ آپ کا بچہ دودھ کون سا پیئے گا‘آپ کے پینے کے لیے کس برانڈ پانی ‘کھانے‘کپڑوں‘جوتوں سمیت معمولی سے معمولی اشیاءکا تعین میڈیا کررہا ہے جس کے پیچھے دنیا کی بڑی بڑی کارپوریشنزکی پراپیگنڈہ مشنری کار فرما ہے- جان پرکنزامریکی حکومت اور مالیاتی اداروں کے مشیر رہے ہیں انہوں نے اپنی کتاب ”دی اکنامک ہٹ مین“میں جہاں بہت سارے رازوں سے پردہ اٹھایا ہے وہیں سرمایہ درانہ نظام کے وحشیانہ اور بے رحمانہ طریقہ کار پر بھی روشنی ڈالی ہے انہوں نے اپنی کتاب میں یہ انکشاف بھی کیا کہ 1970کی دہائی سے دنیا کے اقتصادی تحت پر قابض یہ ”معاشی دہشت گرد“کس طرح سے پوری دنیا کے قدرتی وسائل پر قابض ہو کر اپنی مناپلی قائم کرنا چاہتے ہیں بلکہ اس نے پینے کے پانی اور خوراک پر کارپوریشنزکے کلی قبضے کا بھی تفصیلی تذکرہ کیا ہے جان پرکنز”مقدس جمہوریت “کی جعلی تقدیس کا گھناﺅنا چہرہ بھی بے نقاب کرتا ہے اور دنیا کو بتاتا کہ حکومتوں کا تعین تمہارے ووٹ نہیں بلکہ دنیا کی بڑی کارپوریشنزکرتی ہیں وہ یہ انکشاف بھی کرتا ہے کہ جو حکمران رشوت سے نہیں مانتا وہ جان سے جاتا ہے اس نے اپنی کتاب میں کئی ملکوں کی مثالیں بھی دی ہیں جن میں حکومتوں کو رشوت دے کر اپنے مفادات کے لیے کام کروائے گئے اور ان حکمرانوں کی فہرست بھی اس کی کتاب میں ملتی ہے جو کسی نہ کسی ”خادثے“کا شکار ہوکر دنیا سے اٹھادیئے گئے-طاقت اور پیسے کی دوڑ پر مشہور ہدایت کار مائیکل مور سمیت دنیا کی بڑی باخبرشخصیات ‘دانشور وں اور مفکرین کی دستاویزی فلمیں‘مضامین‘کتب اور انٹرویوزبھی ملتے ہیں جو دنیا بھر کے وسائل پر قابض طاقتور مافیازکے انسان دشمن چہروں سے نقاب اٹھاتے ہیں -ان معاشی درندوں کا سب سے بڑا اور موثر ہتھیار پراپیگنڈہ ہے ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ سوتے میں بھی انسانی دماغ ارگرد کا ماحول ‘باتیں اور واقعات کو ریکارڈ کرتا رہتا ہے‘کیبل ٹی وی ہو یا انٹرنیٹ اگر اسے انسانی نسل کی بھلائی کے لیے استعمال کیا جائے تو یہ انتہائی موثر ثابت ہوسکتے ہیں مگر افسوس کہ انہیں زیادہ تر کاروباری مفادات کے لیے پراپیگنڈہ مشین کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے-دنیا بھر میں نسلی‘مذہبی‘مسلکی ‘لسانی تعصب میں جتنا اضافہ آج کی ”مہذب“دنیا میں ہوا ہے ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی یہ صورتحال استحصالی طبقات کے لیے آئیڈیل ہے - حال ہی میں سامنے آنے والے تنازعات جن میں امریکا کے صدارتی انتخابات سرفہرست ہیں اس ثابت کا ثبوت ہیں کہ سماجی رابطوں کی یہ ویب سائٹس انسانیت کی بھلائی کی بجائے اپنے کاروباری مفادات کے لیے جعل سازی کرکے مخصوص رجحانات کو فروغ دینے میں ملوث ہیں جوکہ بنیادی انسانی حقوق کے منافی مگر افسوس کہ عام شہریوں میں نسل پرستی‘تفرقہ اورنفرت پھلانے پر انسانی حقوق کا کوئی اداراہ ا ن طاقتور مافیازکے خلاف آوازبلند کرنے کو تیار نہیں یہ تہذیبوں‘زبانوں ‘روایات اور اقدار کو ختم کرنے کا سبب بن رہی ہیں جس سے معاشرے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں مگر حکومتیں ان کے خلاف کاروائی سے قاصرہیں -سماجی رابطوں کی ویب سائٹس اور ایپلی کیشنزپر پغامات کے ذریعے ملکوں کی تقدیروں کے فیصلے ہورہے ہیں مگر ہم بے بسی سے اس تباہی کو دیکھ رہے ہیں- ایک حالیہ تحقیق کے مطابق 90فیصد سے زائد نوجوان صبح اٹھنے کے بعد سب سے پہلے اپنے سوشل میڈیا اکاﺅنٹس کو چیک کرتے ہیں یعنی مسلمان کی حیثیت سے ہمارے ہاں جو تصور رائج تھا کہ دن کا آغازنمازیا قرآن پاک کی تلاوت سے کرنا یا کم سے کم خدا کو یاد کرکے کرنا ہوتا تھا آج دن کا آغازاور اختتام سوشل میڈیا کو دیکھ کر ہوتا ہے تو یہاں سوشل میڈیا کی سب سے بڑی ویب سائٹ کا یہ دعوی درست معلوم ہوتا ہے کہ چند دہائیوں میں سوشل میڈیا دنیا کا سب سے بڑا مذہب ہوگااور شاید یہی دجالی فتنے کا نکتہ آغاز ہے کچھ بھی ہو سوشل میڈیا ایک تصوراتی دنیا بنانے میں کامیاب ہوچکا ہے اور سراب کے پیچھے نوجوان نسل تیزی کے ساتھ ان اندھی کھائیوں کی طرف جارہی ہے جہاں تباہی کے سوا کچھ نہیں-