ایون فیلڈ ریفرنس ، حسین نواز کی تصویر لیک کرنے والا جے آئی ٹی سیکرٹریٹ کا رکن تھا ،نام نہیں بتا سکتا،واجد ضیا

اٹارنی جنرل آفس کو تصویر لیک کرنے والے کا نام بتا دیا تھا، قطری شہزادے کو سوالنامہ بھینے کے معاملے پر جے آئی ٹی ممبران میں اتفاق نہ ہو سکا تھا،قطری شہزادے نے شریف خاندان سے متعلق لکھے گئے دونوں خطوط کی تصدیق کر دی تھی، جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیا کا انکشاف

جمعرات 29 مارچ 2018 20:20

ایون فیلڈ ریفرنس ، حسین نواز کی تصویر لیک کرنے والا جے آئی ٹی سیکرٹریٹ ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 29 مارچ2018ء) احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف ۔مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس میںدوسرے روز بھی استغاثہ کے گواہ واجد ضیا پر جرح جاری رہی ۔ واجد ضیا نے کہا کہ حسین نواز کی تصویر لیک کرنے والا جے آئی ٹی سیکرٹریٹ کا رکن تھا لیکن اس کا نام نہیں بتا سکتا،اٹارنی جنرل آفس کو تصویر لیک کرنے والے کا نام بتا دیا تھا۔

واجد ضیا نے انکشاف کیا کہ قطری شہزادے کو سوالنامہ بھینے کے معاملے پر جے آئی ٹی ممبران میں اتفاق نہ ہو سکا تھاتاہم قطری شہزادے نے شریف خاندان سے متعلق لکھے گئے دونوں خطوط کی تصدیق کر دی تھی۔ عدالت نے کیس کی سماعت (آج) جمعہ کی صبح دس بجے تک ملتوی کر دی۔جمعرات کو حتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے شریف خاندان کے ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کی۔

(جاری ہے)

سابق وزیر اعظم نواز شریف ان کی بیٹی مریم نواز اور کیپٹن صفدر عدالت میں پیش ہوئے۔ خواجہ حارث نے استغاثہ کے گواہ واجد ضیا پر دوسرے روز بھی جرح کی اور پوچھا کہ کیا آپ متعلقہ ریکارڈ لائے ہیں واجد ضیا نے کہا کہجی لایا ہوں خواجہ حارث نے واجد ضیا سے قطری شہزادے سے خط وکتابت سے متعلق سوالات کیے۔ واجد ضیا نے کہا حمد بن جاسم کو 13 مئی 2017 کو پہلا خط لکھا خواجہ حارث نے کہا کہ اس خط میں آپ نے حمد بن جاسم کو جے آئی ٹی میٹنگ میں آنے کا کہا واجد ضیا نے کہا کہ اسی خط میں حمد بن جاسم سے سپریم کورٹ کو پہلے لکھے گئے دو خطوط کی تصدیق کا بھی کہا، جس پر واجد ضیا نے کہا کہ جی، میں نے ایسا کیا لیکن میں نے اس خط میں مزید متعلقہ ریکارڈ اور اضافی دستاویزات جمع کرانے کا بھی کہا تھا، سوال ہوا کہ آپ نے حمد بن جاسم کے دونوں خطوط پڑھنے کے بعد متعلقہ ریکارڈ لانے کا کہا تھا جواب ملا کہ نہیں، میں نے صرف خطوط کی بنیاد پر نہیں، تمام اضافی دستاویزات لانے کا کہا تھا،متعلقہ اضافی دستاویزات صرف خطوط کی بنیاد پر نہیں مانگے تھے مثلا ورک شیٹ اور ٹرانزیکشن کے سپورٹنگ دستاویزات خواجہ حارث نے کہا مثلا میں کیا کیا دستاویزات شامل ہیں واجد ضیا نے جواب دیا کہ کوء بھی بینکنگ ریکارڈ، خط کا کوئی بھی معاہدہ جو ٹرانزیکشن کو سپورٹ کرے، سوال ہوا کوئی اضافی دستاویزات آپکے ذہہن میں تھیں جواب ملا کہ نہیں، یہ خصوصی طور پر نہیں،میرا مطلب تمام متعلقہ ریکارڈ سے متعلق تھیں، خواجہ حارث نے رد عمل دیا کہ ہمیں مطلب سے غرض نہیں براہ راست سوال جواب چاہیں، جس پر ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر نے کہا کہ میرے موکل کو جواب دینے دیا جائے، مکمل اور پورا جواب دینے دیں، واجد ضیا نے کہا کہ حمد بن جاسم کی جانب سے خط کا جواب 24 مء 2017 کو آیا، خواجہ حارث بولے کہ کوء شک و شبہ تو نہیں کہ یہ خط حمد بن جاسم نے ہی لکھا، اس خط کی رو سے حمد بن جاسم نے اپنے پہلے دونوں خطوط کی تصدیق بھی کی،حمد بن جاسم نے خطوط کے بعد اب انہیں آنے کی ضرورت نہیں، 24 مئی کو ہی آپ نے حمد بن جا سم کو ایک اور خط لکھا جس میں پہلے لکھے گئے خطوط کی تصدیق کی۔

جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ یہ کمپانڈ سوال ہے، واجد ضیا نے کہا کہ جی میں نے خط لکھا تھا،اس خط میں گزشتہ خطوط کی تصدیق کی اور متعلقہ دستاویزات لانے کا بھی کہا تھا، واجد ضیا نے انکشاف کیا کہ قطری شہزادے کو سوالنامہ بھینے کے معاملے پر جے آئی ٹی ممبران میں اتفاق نہ ہو سکا۔ یہ اہم معاملہ تھا اس لیئے اتفاق نہ ہونے پر سپریم کورٹ کے پانامہ عمل درآمد بنچ کو خط لکھا۔

رجسٹرار سپریم کورٹ نے فون پر بتایا یہ اہم معاملہ ہے جے ائی ٹی خود فیصلہ کرے۔ جے آء ٹی خط میں یہ نہیں لکھا کہ اتفاق نہ ہونے پر سپریم کورٹ کو اگاہ کر رہے ہیں۔حماد بن جاسم نے کہا تھا کہ پاکستان نہیں آ سکتا۔ حماد بن جاسم نے تجویز دی تھی کہ جے آء ٹی ارکان دوحہ یا قطر آ جائیں۔حماد بن جاسم نے کہا کہ سوالنامہ بھجوا دیں ۔ جے ائی ٹی ٹیم میں سوالنامہ پر اتفاق نہ ہو سکا۔

پھر جے ائی ٹی نے فیصلہ کیا تھا کہ سوالنامہ ابھی نہیں بھیجا جائے گا۔ واجد ضیا پر جرح کے دوران خواجہ حارث اور نیب پراسیکیوٹر میں تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا کہ خواجہ حارث بار بار گواہ کو کنفیوز کرنے کے لیے غیر ضروری سوالات کر رہے ہیں،خواجہ حارث نے کہا کہ کیا یہ عدالت بے بس ہے کہ گواہ عدالت کو ڈکٹیٹ کرے گا۔

میں نے کبھی بھی ایسے پراسیکیوٹر نہیں دیکھے جو غیر ضروری بار بار مداخلت کریں۔ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ایسے پراسیکیوٹر اس لئے نہیں دیکھے کیونکہ آپ کے مرضی کے پراسیکیوٹر نہیں ہیں۔ خواجہ حارث نے واجد ضیا سے سوال کیا کہ کیا آپ قطری شہزادے کے گھر جا کر بیان قلمبند کرتے تو درست ہوتا،واجد ضیا نے کہا کہ معمول کی پریکٹس یہی ہے کہ غیر ملکی گواہوں سے سفارتخانے میں بیان کیا جاتا ہے، آپ میرے منہ میں تو الفاظ نہ ڈالیں، سوال ہوا کہ آپ نے قطری شہزادے کو لکھا کہ سوال جواب انگریزی میں ہونگے، کیا آپ نے ان سے پہلے پوچھا تھا کہ انہیں انگریزی آتی ہے، واجد ضیا نے جواب دیا کہ انگریزی آتی ہے یا نہیں یہ پہلے نہیں پوچھا، یہ بات درست نہیں کہ جے آئی ٹی کی طرف سے سخت شرائط رکھی گئیں،سخت شرائط کی وجہ سے قطری شہزادے نے بیان ریکارڈ نہیں کروایا یہ تاثر بھی درست نہیں۔

ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب پھر بولے کہ یہ ایک ساتھ کئی سوالات پوچھ رہے ہیں جس سے گواہ کنفیوژ ہو رہا ہے خواجہ حارث نے کہا کہ یہ بتا دیں کہ میرے پوچھے گئے سوال کو الگ الگ کیسے پوچھا جا سکتا ہی خواجہ حارث نے کہا ہماری آپس کی نوک جھونک چلتی رہتی ہے ، اس پر ٹکٹ لگا دیں، سردار مظفر نے کہا کہ آپ کی باتوں پر ویسے ہی ٹکرز چل جاتے ہیں، خواجہ حارث نے کہا کہ میں ٹکرز نہیں ٹکٹ کی بات کر رہا ہوں۔

واجد ضیا نے کہا کہ جے آئی ٹی میں ڈسکشن کے دوران بتایا گیا کہ کچھ اداروں میں تفتیش سے قبل سوالنامہ بھجوایا جاتا ہے،یہی ہوتا ہے کہ کوئی تگڑا ہو تو اسے سوالنامہ بھجوا دو ورنہ تفتیش کے لیے بلا لو، خواجہ حارث نے کہا کہ 22 جون 2017 کو جے آئی ٹی نے حمد بن جاسم کو تیسرا خط لکھا اور سخت شرائط رکھیں، آپ نے خط میں جان بوجھ کر اتنی سخت شرائط رکھیں تاکہ وہ بھاگ جائیں ، آپ نے لکھا کہ قطر میں تحقیقات صرف پاکستانی ہائی کمیشن میں ہوں گی، واجد ضیا نے کہا کہ یہ بات اس لیے کہی گئی کیونکہ بیرون ممالک میں پاکستان ہائی کمیشن کو پاکستان کی سرزمین تصور کیا جاتا ہے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ حمد بن جاسم کا بیان اگر ان کے گھر ، آفس یا محل میں جا کر ریکارڈ کرنے میں کیا ممانعت تھی کیا پاکستانی ہائی کمیشن کے علاوہ کسی اور جگہ بیان ریکارڈ کرنے سے وہ موثر نہ ہوتا جس پرواجد ضیا نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ پھر کیا آپ ہماری سیکورٹی کی کوئی ضمانت دیتے خواجہ حارث نے کہا کہ میں نے سوال پوچھا ہے کہ کیا گواہ کا بیان اس کے گھر، محل یا دفتر جا کر ریکارڈ کرنے میں کوئی قانونی پابندی ہے، خواجہ حارث نے کہا کہ آپ نے حمد بن جاسم کو لکھے گئے خط میں یہ بھی شرط لگائی کہ تحقیقات انگریزی زبان میں ہوں گی کیا آپ نے شرط عائد کرنے سے پہلے یہ بات معلوم کی کہ ان کی انگریزی کتنی بہتر ہی واجد ضیا نے کہا نہیں ایسا نہیں پوچھا۔

خواجہ حارث نے کہا کہ کیا جے آئی کی حدود سے حسین نواز کی تصویر لیک ہوئی۔ واجد ضیا نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ حسین نواز کے بیان قلمبند کرانے کی فوٹو جے آئی ٹی کی حدود سے لیک ہوئی۔یہ نہیں بتا سکتا کہ تصویر لیک ہونے کے معاملے کی انکوائری میں کس کو قصور وار ٹھہرایا گیا تھا۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر بحث آیا اور اٹارنی جنرل کو نام بتا کر اختیار دیا گیا تھا کہ وہ بتانا چاہیں تو نام بتا دیا۔

خواجہ حارث نے کہا کہ حمد بن جاسم نے 26 جون کو جے آئی ٹی کو خط میں لکھا کہ وہ پاکستانی قوانین کے تابع نہیں حمد بن جاسم نے چھ جولائی کو جے آئی ٹی کو آخری خط لکھا واجد ضیا نے کہا کہ آخری خط میں بھی حمد بن جاسم نے اپنے سابقہ خطوط کے متن کی تصدیق کی۔ واجد ضیا پر جرح جاری ہے عدالت نے کیس کی سماعت دس بجے تک ملتوی کردی۔

متعلقہ عنوان :