پاکستان کے وہ اعلیٰ افسر جنہوں نے ملک کا خوب پیسہ لُوٹا

اور جب وقت آیا تو اپنے ہی وطن میں دو گز زمین تک نہ ملی

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین منگل 27 مارچ 2018 13:00

پاکستان کے وہ اعلیٰ افسر جنہوں نے ملک کا خوب پیسہ لُوٹا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 27 مارچ 2018ء) : معروف صحافی اور کالم نگار جاوید چودھری نے اپنے آج کے کالم میں پاکستان کے ایک ایسے اعلیٰ افسر کی کہانی بیان کی ، جنہوں نے بھرپور کرپشن کی ، ملک کا پیسہ لُوٹا لیکن جب ان کا دنیا سے جانے کا وقت آیا تو انہیں اسی وطن میں دو گز زمین بھی میسر نہ آئی۔ اپنے کالم میں جاوید چودھری نے لکھا کہ پاکستان کے سابق نیول چیف ایڈمرل منصور الحق کو امریکہ کی سب سے بڑی ریاست ٹیکساس کے دارالحکومت آسٹن کی ایک معمولی سی جیل میں قید کیا گیا۔

منصور الحق کو آسٹن حکام نے2001ء میں پاکستان کی درخواست پر گرفتار کیا تھا۔ ان پر الزام عائد تھا کہ انہوں نے نیول چیف کی حیثیت سے اربوں وپے کے گھپلے کیے۔ حکومت نے ان کے خلاف تحقیقات شروع کیں تو وہ فرار ہو کر امریکہ چلے گئے۔

(جاری ہے)

امریکہ پہنچے پر انہوں نے کرپشن کے پیسے سے خوب عیش کی۔ نیب نے امریکہ سے درخواست کی اور وہ گرفتار ہو گئے۔ گرفتاری کے بعد آسٹن کے قوانین کے مطابق ضروری کارروائی ہوئی اور پھر جج کے حکم سے انہیں جیل بھیج دیا گیا۔

یہ شروع میں میکسیکو کے چوروں، منشیات فروشوں اور سنگین جرائم میں ملوث مجرموں کے درمیان رہے لیکن پھر ان کے خاندان کی درخواست پر انہیں ایک’’ خصوصی کمرے‘‘ میں منتقل کردیا گیا ۔وہ جیل میں قیدیوں کے لیے مخصوص سبزی مائل نیلا لباس پہنتے تھے اور ان کے پاؤں میں مالٹے رنگ کے سلیپر ہوتے تھے۔ ناشتے، لنچ اور ڈنر کے وقت انہیں خصوصی نگرانی میں جیل کے ڈائننگ روم میں لایا جاتا تھا جہاں وہ اپنی پلیٹ ہاتھ میں اٹھا کر قطار میں کھڑے ہوتے تھے، اور اپنی باری پر کھانا لیتے تھے۔

کھانے کے بعد اپنی پلیٹ خود دھوتے تھے اور چپ چاپ واپس آ جاتے تھے۔ پیشی کے وقت انہیں عدالت لے جایا جاتا تھا توان کے ہاتھوں میں ہتھکڑی اور پاؤں میں بیڑیاں ہوتی تھیں۔ملاقات کے وقت بیگم صاحبہ جیل آتی تھیں اور وہ دونوں آمنے سامنے بیٹھ جاتے تھے۔ درمیان میں شیشے کی مضبوط دیوار ہوتی تھی۔ وہ دونوں ٹیلیفون کے ذریعے گفتگو کرتے تھے۔ ان کی گفتگو ساتھ ساتھ ریکارڈ ہوتی جاتی تھی۔

یہ وہ حالات ، وہ صورتحال تھی جس سے مجبور ہو کر سابق نیول چیف نے شکست تسلیم کر لی۔ انہوں نے کرپشن کی ساری کمائی نیب کے حوالے کرنے کی حامی بھر لی اور خود کو پاکستان کی تحویل میں دینے کی درخواست دے دی۔ منصور الحق کی درخواست منظور ہو گئی اورنیب حکام17اپریل 2001ء کو آسٹن پہنچے۔جیل حکام نے ان کا مجرم ان کے حوالے کر دیا۔ منصور الحق جونہی پاکستانی حکام کے کنٹرول میں آئے ان کی زندگی کا دھارا بدل گیا۔

جیل کا لباس اتر گیا۔ انہیں خوبصورت اور قیمتی سوٹ پہنا دیا گیا۔ انہیں آرام دہ گاڑی میں ائیر پورٹ اور وہاں سے جہاز کے فرسٹ کلاس ٹکٹ پر پاکستان لایا گیا۔ وہ راولپنڈی پہنچے تو انہیں کسی سیف ہاؤس‘ انٹیروگیشن سینٹر‘ حوالات یا جیل میں رکھنے کے بجائے سہالہ ریسٹ ہاؤس میں ٹھہرا دیا گیا۔ انہیں وہاں آراستہ و پیراستہ آرام دہ بیڈ روم دے دیا گیا۔

ایئر کنڈیشنربھی آن ہو گیا۔ فریج بھی آ گئی اورٹی وی بھی لگ گیا اور انہیں اخبارات بھی پہنچنا شروع ہو گئے۔ وہ نوے روز اس ریسٹ ہاؤس میں رہے اور اس شان سے رہے کہ خانساماں ان سے پوچھ کر ان کے لیے لنچ اور ڈنر تیارکرتاتھا۔انہیں ان کی مرضی کے ڈاکٹر اور دوائیں دی جاتی تھیں۔ وہ جب چاہتے تھے انہیں واک کرنے کا موقع دیا جاتا تھا۔ انہیں ہر شخص، ہر آفیسر ''سر'' کہہ کر مخاطب ہوتا تھا ۔

افسر تفتیش اور تحقیقات کے لیے بھی اجازت لے کر ان کے سامنے بیٹھنے کے جسارت کرتے تھے ورنہ وہ کھڑے ہو کر سوال پوچھتے تھے۔ رات کو اگر انہیں پانی کی ضرورت پڑتی تھی یا انہوں نے اے سی کا درجہ حرارت تبدیل کرنا ہوتا تھا تو انہیں بستر سے اٹھنا نہیں پڑتا تھا۔ وہ بس بیل دیتے تھے اور نوکر آ کر ان کا تکیہ اور چادر تک درست کر جاتا تھا۔20 اگست 2001ء کو منصور الحق کا جسمانی ریمانڈ پورا ہوا۔

انہیں احتساب کورٹ میں پیش کیا گیا۔ جج نے ان کوعدالتی ریمانڈ پر جیل بھجوانے کا حکم جاری کر دیا۔ جاوید چودھری نے لکھا کہ آپ سابق نیول چیف کی خوش قسمتی دیکھئے جج کے حکم کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ احتساب بیورو کے چیئرمین نے اسی سہالہ ریسٹ ہاؤس کو ’’ سب جیل‘‘ قرار دے دیا۔ اور پھر یوں ہمارے سابق نیول چیف عدالت سے نکلے اور جیل کے نام پر سیدھے ریسٹ ہاؤس پہنچ گئے۔

وہ جب تک ’’جیل‘‘ میں رہے ‘وہ ڈائننگ ٹیبل پر لنچ کر تے رہے،واک کرتے رہے، سوٹ پہنتے رہے اور وہ بیگم صاحبہ سے ’’بالمشافہ‘‘ ملاقات کرتے رہے۔یہ ’’جیل‘‘ بھی اس وقت تک قائم رہی جب تک انہوں نے ’’پلی بارگین‘‘ نہیں کر لیا۔ ’’صاحب‘‘ نے کرپشن کی دولت کا دس فیصد نیب میں جمع کروایا اور وہ دنیا کے ’’فری سٹیزن‘‘ ہو گئے۔ وہ پوری دنیا میں پھرنے لگے یہاں تک کہ 21 فروری 2018ء کا دن آ گیا، وہ متحدہ عرب امارات میں اپنے گھر میں تھے جب انہیں آخری ہچکی آئی اور وہ چپ چاپ دنیا سے رخصت ہو گئے۔

وہ فوت ہوئے تو لوگ یہ تک بھول چکے تھے منصور الحق پاکستان کے وہ پہلے نیول چیف تھے جنہیں 1997ء میں کرپشن کے الزامات میں نوکری سے فارغ کیا گیا تھا۔ وہ اربوں روپے کے مالک تھے لیکن وہ ان اربوں روپے سے ملک میں قبر کے لیے چھ فٹ زمین نہیں خرید سکے۔ وہ ایک افسوس ناک زندگی کے بعد دنیا سے رخصت ہو گئے۔ جاوید چودھری نے لکھا کہ میری چیئرمین نیب سے درخواست ہے آپ نیب کے ہیڈ کوارٹر میں ایڈمرل منصور الحق کی ایک علامتی قبر بنا دیں۔

نیب جو بھی بڑا مجرم گرفتار کرے، وہ اسے اس قبر پر لائے اور پھر عرض کرے ’’سر! حرام کی جس کمائی نے منصور الحق کا ساتھ نہیں دیا تھا آپ اسے کب تک چھپا لیں گے۔ توبہ کریں اور راہ راست پر آ جائیں‘‘ شاید یہ قبر ہی بھٹکے ہوؤں کو راہ راست پر لے آئے۔ شاید منصورالحق کا انجام ہی گمراہوں کو اصل راہ دکھا دے، شاید منصور الحق نئے منصورالحقوں کی پیدائش روک دے،آپ اس قبر کو کہانی کا آخری منظر بنا دیں۔

متعلقہ عنوان :