فاروق ستار نے اپنی کنوینر شپ کیخلاف دیئے گئے فیصلے کو سیاہ، غیر منصفانہ اور غیر آئینی قرار دیدیا

الیکشن کمیشن کے فیصلے کا مقصد ایم کیو ایم کو ختم کر نا ہے ،ْ انٹرا پارٹی تنازع پر فیصلہ دینا الیکشن کمیشن کا کام نہیں ہے، میرے منشور کی تشریح الیکشن کمیشن نہیں کرسکتا، یہ کام ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کرسکتی ہے ،ْمجھے 23 اگست 2016 کو بانی ایم کیو ایم کے خلاف کھڑے ہونے کی سزا دی گئی ہے ،ْمائنس الطاف کے بعد مائنس فاروق ہورہاہے ،ْ کارکنوں کی اکثریت بہادرآباد والوں کے ساتھ نہیں ہے ،ْ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما کی میڈیا سے بات چیت

پیر 26 مارچ 2018 22:55

فاروق ستار نے اپنی کنوینر شپ کیخلاف دیئے گئے فیصلے کو سیاہ، غیر منصفانہ ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 26 مارچ2018ء) ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے اپنی کنوینر شپ کے خلاف دیئے گئے فیصلے کو سیاہ، غیر منصفانہ اور غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کا مقصد ایم کیو ایم کو ختم کر نا ہے ،ْ انٹرا پارٹی تنازع پر فیصلہ دینا الیکشن کمیشن کا کام نہیں ہے، میرے منشور کی تشریح الیکشن کمیشن نہیں کرسکتا، یہ کام ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کرسکتی ہے ،ْمجھے 23 اگست 2016 کو بانی ایم کیو ایم کے خلاف کھڑے ہونے کی سزا دی گئی ہے ،ْمائنس الطاف کے بعد مائنس فاروق ہورہاہے ،ْ کارکنوں کی اکثریت بہادرآباد والوں کے ساتھ نہیں ہے۔

پیر کو ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے فاروق ستار نے کہا کہ ماضی میں مولوی تمیز الدین خان کیس کا فیصلہ جسٹس منیر نے دیا تھا، اسی طرح اور بہت سے عدالتی فیصلے پاکستان کی تاریخ میں ہوئے ہیں، جن کا آج تک حوالہ دیا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

فاروق ستار نے کہا کہ میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ جسٹس منیر کے فیصلے کی طرح جسٹس (ر) سردار رضا اور ان کے 4 یا 5 رکنی الیکشن کمیشن نے جو فیصلہ دیا ہے، وہ پاکستان کے انتخابی یا الیکشن کمیشن کے فیصلوں کے حوالے سے سیاہ فیصلے کے طور پر یاد رکھا جائیگا۔

انہوں نے کہا کہ انٹرا پارٹی تنازع پر فیصلہ دینا الیکشن کمیشن کا کام نہیں ہے، میرے منشور کی تشریح الیکشن کمیشن نہیں کرسکتا، یہ کام ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کرسکتی ہے۔فاروق ستار نے کہا کہ مجھے 23 اگست 2016 کو بانی ایم کیو ایم کے خلاف کھڑے ہونے کی سزا دی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس فیصلے کا مقصد مائنس ون نہیں بلکہ ایم کیو ایم کا خاتمہ ہے ،ْ الیکشن کمیشن نے باقی سب کو عدالت بھیجا ہمیں گھر بھیجنے کی تیاری ہورہی ہے۔

فاروق ستار نے کہا کہ ایم کیو ایم کے کارکنوں اور ووٹرز سے پتنگ چھین کر بہادرآباد کے ساتھیوں کو دی گئی ہے جبکہ کارکنوں کی اکثریت بہادرآباد والوں کے ساتھ نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ آج کے فیصلے سے مجھے 9 نومبر 2016 کے فیصلے کی بھی سزا دی گئی، جب میں نے پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفی کمال کے ساتھ الحاق کرنے کی کوشش کی تھی۔ فاروق ستار نے کہا کہ جسٹس وجیہہ کے کیس میں کہا گیاکہ انٹرا پارٹی اختلاف ہے اور ہم فیصلہ نہیں کر سکتے لیکن ہمیں گھر بھیج دیا گیا ہے ،ْ اکبر ایس بابر کے مقدمے پر بھی کہا گیا کہ انٹرا پارٹی میں ہمارا کام نہیں ہے، پارٹی کے اندرونی جھگڑوں میں الیکشن کمیشن نے کبھی فیصلہ نہیں کیا اور نہ ان کا اختیار ہے، آج فیصلہ کیسے کیا گیا، درخواست کو مسترد کیا جانا چاہیے تھا کنور نوید بھائی کی، ان کی تینوں درخواستیں منظور کی گئیں، یہ فیصلہ پہلے سے طے شدہ تھا۔

فاروق ستار نے کہا کہ 2018کے الیکشن میں ووٹوں کی تقسیم کے ذریعے ایک نمائندہ جماعت کی بجائے سیٹیں پی ٹی آئی، کچھ پی ایس پی، کچھ ایم ایم اے اور بچی کھچی بہادر آباد والوں کو دی جانے کا پلان ہے ۔ فاروق ستار نے کہا کہ 2018میں ایم کیو ایم کی سازش کو ختم کرنے کے منصوبے کو آج آگے بڑھایا گیا ہے، مقصد ایم کیو ایم کو ختم کرنا ہے، میں نے ایم کیو ایم کو بچایا تو میرے خلاف منصوبہ بنایا گیا جس پر کام ہو رہا ہے، مائنس الطاف حسین کے بعد مائنس فاروق ستار ہو رہا ہے، یہ غیر آئینی فیصلہ ہے، جمہوری اقدار کو پامال کیا گیا ہے، ساڑھے 9ہزار ووٹ کو غیر آئینی کیسے قرار دیا جا سکتا ہے ، اگر الیکشن کمیشن ایک کے خلاف اور دوسرے کے حق میں فیصلہ دے تو باقی سیاسی جماعتیں بھی ہوش کے ناخن لیں، آج میری باری تو کل کسی اور کی بھی ہو سکتی ہے،بار وکلاء اس فیصلے کو غور سے دیکھیں، دال میں کچھ تو کالا ہے، سب کو نظر آ رہا ہے، پی ایس پی کے ساتھ الائنس میں مجھے تین لوگوں کو ایڈرس کرنا پڑا تھا، میں نے اس الائنس کو ختم کرنے کی بات کی اور کہا تھا کہ نو مور انجینئرنگ ان پولیٹکس، پارٹی کے اندر بھی میری مخالفت ہو رہی تھی جس پر میں نے سیاست چھوڑنے کا اعلان کیا تھا، آج کا فیصلہ 9نومبر کی پریس کانفرنس کی بھی سزا ہے، اب میں دیکھتا ہوں ایم کیو ایم کے ووٹ بینک کو کیسے ختم کیا جاتا ہے، مسئلہ میری ایم کیو ایم کی موثر سربراہی کا تھا۔