بجٹ خسارے میں کمی اور عالمی مالیاتی اداروں کی قسطوں کی ادائیگیوں کے لیے حکومت نے آئی ایم ایف کو گیس اور بجلی کے ٹیرف میں فوری اضافے کی یقین دہانی کرادی -پاکستان پوائنٹ نیٹ ورک کے ایڈیٹرمیاں محمد ندیم کی خصوصی رپورٹ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم پیر 26 مارچ 2018 12:36

بجٹ خسارے میں کمی اور عالمی مالیاتی اداروں کی قسطوں کی ادائیگیوں کے ..
لاہور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-میاں محمد ندیم سے۔26مارچ۔2018ء) بجٹ خسارے میں کمی اور عالمی مالیاتی اداروں کی قسطوں کی ادائیگیوں کے لیے حکومت نے بین الااقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو قدرتی گیس اور بجلی کے ٹیرف میں فوری اضافے کی یقین دہانی کرادی ہے۔آئی ایم ایف کو مزید بتایا گیا کہ مالی اور بیرونی اکاﺅنٹس میں بڑھتے ہوئے خطرات کو کم کرنے کے لیے بیرونی سرمایہ کاری سے چلنے والے منصوبوں کی اسکروٹنی کا عمل مزید بہتر بنایا جائے گا۔

مالیاتی ادارے اور حکومت نے آمادگی کا اظہار کیا ہے کہ موجودہ حکومت کے مختصر دور اقتدار کے دوران ہی محدود پیمانے پر ترقی کا حصول ممکن ہے جو صرف پبلک سیکٹر اداروں اور معاشی اصلاحاتی عمل میں بہتری کے ذریعے ممکن ہے۔ معتبرذرائع کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ آئی ایم ایف نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ گزشتہ برس میں پاکستان کے گردشی قرضوں میں بہتری آئی تاہم اب صورتحال یکسر مختلف اور گردشی قرضے جی ڈی پی کا 70 فیصد ہو چکے ہیں لیکن حکام اپنی حالیہ پالیسی پر پرامید نظر آتی ہے۔

(جاری ہے)

آئی ایم ایف نے پاکستان کی اقتصادی کارکردگی رپورٹ میں زور دیا کہ سبسڈی پر مشتمل پالیسی کو از سرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاہم شعبہ گیس کے ٹیرف میں اضافہ کرنا ناگزیر ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ وصولی ہو سکے‘تاہم حکومتی ذرائع کا کہنا ہے شوکت عزیزکی وزارت عظمی کے دور میں تقریبا تمام عوامی سہولیات میں حکومت ہر قسم کی سبسڈیزختم کرچکی ہے۔

حکومت کی جانب سے معاشی پالیسوں کو مثبت قرار دیا جارہا ہے جس میں امید ظاہر کی گئی کہ سرمایہ داروں کی دلچسپی اور بیرونی فنانسنگ کی وجہ سے وسط مدت میں ہی اقتصادی شرح نمو میں بہتری آئے گی‘تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ملک میں سرمایہ کاری میں کمی واقع ہورہی ہے جبکہ افراط زرکی شرح میں ہونے والے بے پناہ اضافے سے ایک طرف جہاں پاکستانی روپیہ اپنی قدر تیزی سے کھو رہا ہے وہیں مہنگائی کی شرح میں ہونے والا اضافہ عام شہریوں کے لیے ناقابل برداشت ہوتا جارہا ہے -ملک میں بیروزگاری کی شرح میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے جبکہ بے یقینی کی صورتحال ہونے سے ملک کے امراءتیزی سے اپنا سرمایہ نکال کر بیرون ملک لے جارہے ہیں‘اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک کی معاشی صورتحال دن بدن بگڑتی جارہی ہے اور اگر ہنگامی بنیادوں پر اقدامات نہ کیئے گئے تو ملک خانہ جنگی کی صورتحال سے دوچار ہوسکتا ہے۔

آئی ایم ایف نے تجویز پیش کی کہ مالی خسارے کو جی ڈی پی کے 5 فیصد تک محدود رکھنے سے قبل اس وقت اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے، ساتھ ہی عالمی ادارے نے مالی نظم و ضبط کو مضبوط کرنے پر زور دیا تاکہ قرض سے منسلک خطرات کو کم کیا جا سکے۔ مالیاتی ادارے کا کہنا ہے کہ ٹیکس میں کمی اور چھوٹ کو ختم کرکے مطلوبہ ہدف حاصل کیا جاسکتا ہے۔اس حوالے سے کہا گیا کہ ٹیکس کی مد میں جی ڈی پی کا 0.3 فیصد، پیٹرولیم، ود ہولڈنگ اور ایکسائز ٹیکس میں جی ڈی پی کا 0.1 فیصد اور اخراجات میں جی ڈی پی کا 0.1 فیصد شامل ہے۔

آئی ایم ایف نے زور دیا کہ گردشی قرضوں میں کمی کے لیے دیگر شبعہ جات پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے جس میں شعبہ توانائی بھی شامل ہے۔ مالیاتی ادارے نے قومی ائیر لائن (پی آئی اے) اور پاکستان اسٹیل ملز (پی ایس ایم) کے خسارے کو بھی قابو کرنے پر زور دیا ہے۔دوسری جانب حکومتی حکام کا خیال ہے کہ رواں مالی اور مونیٹری پالیسی سے طے شدہ ترقی کے اہداف حاصل ہو سکیں گے اور مالی خسارہ جی ڈی پی کا 5 فیصد تک رہے گا۔

ادھرپاکستان میں توانائی کے شعبے میں گردشی قرضے اندازے سے کئی گناہ زائد ہوگئے اور نومبر 2017 کے اختتام تک یہ 922 ارب روپے تک پہنچ گئے تھے۔وزارت خزانہ کی رپورٹ میں 30 نومبر 2017 تک گردشی قرضوں کی رقم 472 ارب روپے سے زائد بتائی گئی تھی تاہم رپورٹ میں پاور ہولڈنگ پرائیویٹ لمیٹڈ (پی ایچ پی ایل) سے متعلق 450 ارب روپے کے قرضوں کے بارے میں تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔

خیال رہے کہ پی ایچ پی ایل توانائی کے شعبے کے ماتحت ادارے ہیں جو تجارتی بینکوں کی جانب سے فنڈز کو اکھٹا کرنے اور صارفین کے ٹیرف میں سرچارجز کے ذریعے مالی معاملات دیکھتا ہے۔اس حوالے سے وزیر مملکت برائے خزانہ رانا محمد افضل خان کے مطابق بتائے گئے 472 ارب روپے سے زائد کے گردشی قرضے توانائی پیدا کرنے والے اداروں کو قلیل مدت میں ادا کرنے تھے لیکن انہیں اسٹیٹ بینک کی 17-2016 کی سالانہ رپورٹ میں نہیں دکھایا گیا اور اس رپورٹ میں مقامی اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے معاشی گروپ کی جانب سے طویل مدتی قرضوں کی ادائیگی کی جانب اشارہ کیا گیا۔

وزارت خزانہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کے 89 ارب 40 کروڑ روپے سمیت تیل اور گیس سیکٹر کو 103 ارب روپے کی ادائیگی کرنی تھی جبکہ دسمبر 2013 میں تیل اور گیس کمپنیوں کی واجب الادا رقم 71 ارب روپے تک تھی۔ واضح رہے کہ گزشتہ ماہ کے آغاز میں پی ایس او کو توانائی کے شعبوں سے 285 ارب روپے وصول کرنے تھے، جس کا مطلب یہ تھا کہ وفاقی حکومت تین سال قبل کے پلان پر عمل کرتے ہوئے 2018 کے وسط تک گردشی قرضوں کو 204 ارب تک لے آئے۔

وزارت خزانہ کی رپورٹ کے مطابق نومبر تک حب پاور کمپنی کو 70 ارب روپے واجب الادا تھے جو 2013 کے 75 ارب کے مقابلے میں کچھ کم تھے جبکہ اس کے برعکس کوٹ ادو پاور کمپنی کے واجبات 2013 کے 41 ارب سے بڑھ کر 73 ارب روپے تک پہنچ گئے۔رپورٹ کے مطابق ان تمام بڑی کمپنیوں سمیت تمام خودکار پاور پروڈیوسر کو واجب الادا رقم 2013 کے 270 ارب روپے کے مقابلے میں 288 ارب روپے ریکارڈ کی گئی۔اسی طرح 2013 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد 480 ارب روپے کی کلیئرنس کے باوجود حالیہ گردشی قرضوں کی کل رقم 30 نومبر 2017 تک 472 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے۔