شام کے مسلمانوں کو بے یار و مددگار چھوڑنا بے حسی کی انتہا ہے ‘ پروفیسرساجد میر

شام میں رونما ہونے والے انسانیت سوز مظالم پر انسانی حقوق کے نام نہاد علمبرداروں کو بھی اپنے طرزِ عمل پر شرم آنی چاہیے

اتوار 25 مارچ 2018 22:10

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 25 مارچ2018ء) مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے امیر سینیٹر پروفیسر ساجد میر نے کہا ہے شام کے مسلمانوں کو بے یار و مددگار چھوڑنا بے حسی کی انتہا ہے ۔ غوطہ میں تاریخ انسانی کے یہ بد ترین مظالم پر انسانی حقوق کے علمبرداروں کی خاموشی مجرمانہ ہے ۔ ادارہ فروغ قرآن و سنت میں شام کے مظلوم مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے لئے منعقدہ سیمینار بعنوان ’’ شام میں مظالم عالمی ضمیر کب جاگے گا ‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ روس اور ایران جنگی جرائم کے مرتکب ہو رہے ہیں ، اقوام متحدہ ، او آئی سی اور بڑی طاقتیں مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں ۔

سینیٹر ساجد میر نے مزید کہا کہ شام کے انسانی المیے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے والے انسانیت کے دشمن ہیں ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ بشار الاسد نے شہروں کو کھنڈ رات میں تبدیل کردیا ہے 5 لاکھ سے زائد ہلاکتوں ، لاکھوں زخمیوں اور املاک کے نقصان کے ذمہ دار بشار الاسد اور اس کی سرپرست طاقتیں ہیں ۔انہوں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انسانیت کا علمبردار اقوام متحدہ اور دوسری این جی اوز اتنے وسیع پیمانے پر ہونے والے مسلمانوں پر مظالم اور اذیت ناک حالات پہ چپ کیوں ہیں، دنیا کے کسی بھی کونے میں دوسرے مذاہب کے افراد کے ساتھ ذرا سی ناانصافی پہ ہرکوئی متحرک ہوجاتاہے مگر میڈیا کے اتنا واویلا کرنے اور غزہ کے مسلمانوں پر بے بہاظلم ڈھانے بلکہ انہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کی ہر ورز سازش اور بیہمانہ رویہ کے باوجود کسی کی زبان تک نہیں ہلی۔

انہوں نے کہا کہ شام کے مسئلے پر حکومت پاکستان کی بے حسی بھی قابل مذمت ہے ۔ ہم نے سیاسی اور سفارتی اعتبار سے بھی کوئی جراتمندانہ قدم نہیں اٹھایا ۔ سینیٹر ساجد میر نے کہا کہ اسلامی اخوت کا تقاضہ ہے کہ عالم اسلام کے مقتدر طبقات شام کے مسلمانوں کی حمایت اور نصرت میں اپنا کردار ادا کریں۔پاکستان کا اسلامی دنیا میں ہمیشہ سے ایک اہم کردار رہا ہے مگر ایک جو ہری قوت اور 22کروڑ آبادی والے ملک ہونے کے باوجود آج ہم پھر بھی بے وقعت ہو کر رہ گئے ہیں۔

ہمارے اندرونی اور داخلی مسا ئل اتنے زیادہ ہیں کہ باہر کی دنیااور سر پر منڈلاتے خارجی خطرات کا ادراک نہیں،آپس کی رسہ کشی اور بڑھتی ہوئی تقسیم نے ملک کو شدید خطرات سے دو چار کر رکھا ہے مگر کسی کو پرواہ نہیں، شام اسلامی دنیا کو درپیش خطرات اور ملکی سلامتی کو درپیش داخلی خطرات پر کہیں بحث ہوتی نظر نہیں آتی۔ اسلامی دنیا میں اپنا روایتی اور تاریخی کردار ادا کرنا تو دور کی بات ہے ہم تو اپنا تشخص بھی بر قرار رکھنے میں ناکام نظرآتے ہیں، یہ ایک لمحہ فکریہ ہے جس پر نہ صرف اسلامی امہ کو غور کرنے کی ضرورت ہے بلکہ بحیثیت قوم ہمیں بھی سنجیدگی سے اپنے طرزِ عمل پر غوروفکر کرنے کی اشد ضرورت ہے، اس سے پہلے کہ ہم سب ایک ایک کر کے شام، عراق اور افغانستان بنتے جائیں، شام میں رونما ہونے والے انسانیت سوز مظالم پر انسانی حقوق کے نام نہاد علمبرداروں کو بھی اپنے طرزِ عمل پر شرم آنی چاہیے۔

سیمینار سے رانا محمد شفیق خاں پسروری،مفتی یوسف قصوری ، مولانا ابراہیم طارق،سید عامر نجیب،مولانا افضل سردار،قاری خلیل الرحمن جاوید ودیگر نے خطاب کیا۔

متعلقہ عنوان :