بلوچستان اسمبلی اجلاس، صوبے کی قو می اسمبلی اور صوبائی اسمبلی میںنشستوں میں اضافے سے متعلق آئینی قرار داد سمیت ماری گیس کمپنی کو زرغون غر کے عوام کیلئے سماجی شعبے میں اقدامات اور گیس کی فراہمی ،

ایل پی جی منصوبے میں تاخیر ،نیو ٹیک کو فعال بنا نے سے متعلق قرار دادیں منظور گندم کی خریداری ماہ مارچ سے شروع کرنے کی قرار داد ،پنجگور میں چیک پوسٹوں پر پیسے لینے سے متعلق تحریک حکومتی یقین دہانی کے بعد محرکین نے واپس لے لیں

ہفتہ 24 مارچ 2018 22:29

،ْکوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 24 مارچ2018ء) بلوچستان اسمبلی نے بلوچستان کی قو می اسمبلی اور صوبائی اسمبلی میں نشستوں کے اضافے سے متعلق آئینی قرار داد سمیت ماری گیس کمپنی کو زرغون غر کے عوام کے لئے سماجی شعبے میں اقدامات اور گیس کی فراہمی ،ایل پی جی منصوبے میں تاخیر ،نیو ٹیک کو فعال بنا نے سے متعلق قرار دادیں منظور کرلیں ،گندم کی خریداری ماہ مارچ سے شروع کرنے کی قرار داد اور پنجگور میں چیک پوسٹوں پر پیسے لینے سے متعلق تحریک حکومتی یقین دہانی کے بعد محرکین نے واپس لے لیں ، بلوچستان اسمبلی کا اجلاس پچاس منٹ کی تاخیر سے سپیکر راحیلہ حمیدخان درانی کی زیر صدارت شروع ہوا ۔

اجلاس کے آغاز پر ماہر تعلیم پروفیسر فضل حق میر اور ارباب نواز کاسی کے لئے فاتحہ خوانی کی گئی ۔

(جاری ہے)

اجلاس میں صوبائی وزیر داخلہ و قبائلی امور میر سرفراز بگٹی نے مشترکہ آئینی قرار داد پیش کی ۔ میر سرفراز بگٹی ، شیخ جعفرخان مندوخیل ، طاہر محمودخان ، سید محمد رضا ، عبدالرحیم زیارتوال ، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ، رحمت صالح بلوچ اور ڈاکٹر شمع اسحاق کی مشترکہ آئینی قرار داد ایوان میں پیش کرتے ہوئے میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بلوچستان رقبے کے لحاط سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور حالیہ مردم شماری کے نتیجے میں صوبے کی آبادی ایک کروڑ بیس لاکھ نفوس سے تجاوز کرچکی ہے ۔

جوکہ پچھلی مردم شماری کے مقابلے میں تقریباً دو گنی ہوچکی ہے تاہم نئی حلقہ بندیوں میں بلوچستان کے لئے قومی اسمبلی کی تین جبکہ صوبائی اسمبلی کی نشستوںمیں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا ۔ قرار داد میں اس رائے کااظہار کیا گیا تھا کہ بلوچستان اسمبلی کا ایوان مجلس شوریٰ( پارلیمنٹ) کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل144کے تحت اختیار دیتا ہے کہ پارلیمنٹ آئین کے آرٹیکل51اور106کے تحت بلوچستان کے قومی اسمبلی کی جنرل نشستوں میں24جبکہ خواتین کی مخصوص نشستوں میں5نشستوں کا اضافہ اورصوبائی اسمبلی کی جنرل نشستوں میں20اور خواتین کی مخصوص نشستوں میں4اور اقلیتی ایک نشست میں اضافے سے متعلق ضروری قانون سازی کرے ۔

قرار داد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ قومی اسمبلی میں بلوچستان کے اراکین کی تعدادآٹے میں نمک کے برابر ہے قومی اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ ناگزیر ہوچکا ہے ہم جب بھی وفاق میں جاتے ہیں تو سٹیبلشمنٹ ڈویژن کے لوگ ہمیں ایک ہی جملہ کہتے ہیں کہ آبادی کے تناسب سے وسائل تقسیم ہورہے ہیں ہم مانتے ہیں کہ اشیائے خوردونوش تو آبادی کے حساب سے تقسیم کی جاسکتی ہیں مگر دیگر وسائل کو بھی آبادی کے تناسب سے تقسیم کرنا صوبے کے ساتھ ناانصافی ہے ۔

جمعیت العلماء اسلام کے مولانا عبدالواسع نے کہا کہ وفاق کی جماعتوں نے مشترکہ فیصلہ کیا تھا کہ قومی اسمبلی کی نشستیں نہیں بڑھائی جائیں گی مگر پھر بھی اس فیصلے کی خلاف ورزی کی گئی جس کا بڑا نقصان بلوچستان کو ہوا ہے جس حساب سے حلقہ بندیاں کی گئی ہیں اگر دیکھا جائے تو ایک امیدوار پانچ مہینوں میں بھی حلقہ انتخاب کا مکمل دورہ نہیں کرسکتا صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی میں بلوچستان کے اضلاع کے حساب سے نشستیں مختص کی جائیں صوبائی وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ ہمیں پچھلی حکومت سے توقع تھی کہ حلقہ بندیوں سے متعلق تحفظات پر عملدرآمد ہوگا مگر ایسا نہیں ہوا لہٰذا اب ہم اس معاملے کو سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں قرار داد کو منظور کیا جائے تاکہ جلدا زجلد اس پرعملدرآمد کے لئے بھی اقدامات ہوں ۔

صوبائی مشیر میر عبدالکریم نوشیروانی نے کہا کہ وفاق میں صوبے کو اہمیت نہیں دی جاتی ہماری قرار دادیں ردی کی ٹوکری میں چلی جاتی ہیں جو قرار داد پاس کی جائے اس پر فالو اپ بھی لیا جائے ۔ جمعیت العلماء اسلام کے سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ حلقہ بندیوںکا مسئلہ پورے بلوچستان کا ہے پارلیمانی وفد کو اسلام آباد بھیجا جائے تاکہ وہ قرار داد پر عملدرآمد یقینی بنانے کے لئے متعلقہ حکام سے بات کرسکے ۔

نیشنل پارٹی کی یاسمین لہڑی نے کہا کہ بلوچستان کے نمائندے وزیراعظم کے انتخاب میں بھی موثر کردار ادا نہیں کرسکتے ہر چیز کو آبادی کی بنیاد پر تقسیم کرنا استحصال ہے دنیا آبادی کم کرنے کی جانب جارہی ہے لیکن ہم اس کے برعکس اقدامات اٹھانے پر مجبور ہیں پشتونخوا میپ کے ڈاکٹر حامد خان اچکزئی نے کہا کہ حلقہ بندیوں میں یکسانیت ہونی چاہئے کہیں حلقہ ضلع کی بنیاد پر ہے تو کہیں آبادی کی بنیاد پر ایک ضلع ایک سیٹ کا مشورہ منظور نہیں ہے ۔

صوبائی وزیر میر عاصم کرد گیلو نے کہا کہ بلوچستان ملک کا نصف حصہ ہے لیکن اس کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے میری تجویز ہے کہ حلقہ بندیاں بیس فیصد رقبے اور اسی فیصد آبادی کی بنیاد پر کی جانی چاہئیں ۔نیشنل پارٹی کے میر خالد لانگو نے کہا کہ بلوچستان کے اضلاع قلات ، مستونگ ، نوشکی ، چاغی جو کہ گیارہ سو کلو میٹر پر محیط ہیں سب سے زیادہ متاثر ہورہے ہیںکوئٹہ کی پانچ نشستوں کو چھوڑ کر دیگر تمام اضلاع میں ایک ایک نشست دی جائے ۔

پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے نے کہا کہ قرار داد پر سیر حاصل بحث ہوئی ہے اب مسئلہ یہ ہے کہ ایک کمیٹی تشکیل دے کر اسلام آباد بھیجی جائے تاکہ وہ حلقہ بندیوں میں ترمیم پر عملدرآمد کراسکے ۔ پشتونخوا میپ کے ولیم جان برکت نے کہا کہ اقلیتوں کی نشستوں میں بھی اضافہ کیا جائے مشیر خزانہ ڈاکٹر رقیہ ہاشمی نے کہا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان سے یہ بات پوچھی جائے کہ کیا انہوں نے حلقہ بندیاں کرنے سے قبل صوبائی الیکشن کمیشن اور یہاں کی سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیا تھا یا نہیں ۔

صوبائی وزیر شیخ جعفرخان مندوخیل نے کہا کہ نئی حلقہ بندیاںکرنے کا وقت گزرچکا ہے جو غلطیاں ہوئی ہیں اسے درست کیا جائے پرانی حلقہ بندیوں کو بحال کردیا جائے اگر نئی حلقہ بندیوں کی طرف جائیں گے تو اس سے انتخابات میں تاخیر کا خدشہ ہے اپوزیشن لیڈر عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ حلقہ بندیوں کے خلاف کوئی بھی شہری الیکشن کمیشن میں درخواست دے سکتا ہے ہمیں قرار داد کے اصل مقصد کے لئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جس کے بعد سپیکر راحیلہ حمیدخان درانی نے رولنگ دی کہ حلقہ بندیوں کا مسئلہ انتہائی اہم نوعیت کا عوامی مسئلہ ہے مردم شماری کے نتیجے میں قومی اسمبلی کے تین حلقوں میں اضافہ جبکہ صوبائی اسمبلی کی نشستوںمیں کسی قسم کا اضافہ نہ ہونا باعث تشویش ہے اور قرار داد واحد ذریعہ ہے جس سے اراکین اسمبلی اپنے تحفظات متعلقہ حکام تک پہنچا سکتے ہیں اس سلسلے میں ایک پارلیمانی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے جو جلدا زجلد متعلقہ حکام سے بات کرے تاکہ اس اہم مسئلے کا حل نکالا جاسکے بعدازاں ایوان نے قرار داد کو متفقہ طو رپر منظور کرلیا ۔

اجلاس میں 17مارچ کو پیش ہونے والی تحریک التواء پر بات کرتے ہوئے سپیکر راحیلہ حمیدخان درانی نے کہا کہ گزشتہ اجلاس میں کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے تحریک التواء پر بات نہیں ہوسکی تھی چونکہ اب یہ مسئلہ عدالت میں زیر سماعت ہے لہٰذا اسمبلی کے قواعد و انضباط کار کے تحت اس پر بحث نہیں کی جاسکتی اس مسئلے کو نمٹایا جاتا ہے جس پر اپوزیشن لیڈر عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ معاملہ صرف ایک ایف آئی آر کا نہیں اس طرح کی تین چار ایف آئی آر کاٹی گئی ہیں صرف نواب ایاز خان جوگیزئی عدالت میں گئے ہیں تاہم دیگر لوگ بھی مقدمات میں نامزد ہیں لہٰذا وزیراعلیٰ بھی ایوان میں موجود ہیں اس مسئلے پر بات کی جائے صوبائی وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ میری قائد حزب اختلاف عبدالرحیم زیارتوال سے تفصیلاً بات ہوئی ہے اس وقت معاملہ عدالت میں ہے قوانین کے مطابق اس پر بات نہیں ہوسکتی اجلاس کے بعد عبدالرحیم زیارتوال سے اس پر تفصیل میں بات کروں گا انہوں نے کہا کہ حکومت بحث کے لئے تیار ہے ہم نے کوئی غیر آئینی اقدام نہیں کیاکہ جس سے ہم پیچھے ہٹیں ۔

پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے نے کہا کہ اراکین پارلیمنٹ کے خلاف مقدمات درج کرنا ٹھیک نہیں جلسوں میں آئین سے متصادم کوئی بات نہیں کی گئی ایسے مقدمات درج کرنا آمریت کی روایت ہے ڈاکٹر حامدخان اچکزئی نے کہا کہ پشتون تحفظ موومنٹ نہ تو کوئی سیاسی جماعت ہے نہ ہی اسے کالعدم قرار دیا گیا ہے پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنمائوں نے وزیراعظم سے بھی ملاقات کی ہے ان کے چند سادہ مطالبات ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہمیں امن دو ، چیک پوسٹوں پر روا رکھا جانے والا رویہ درست کیا جائے ماورائے عدالت قتال میں ملوث افسران کو گرفتار کیا جائے اس میں کوئی ایسی بات نہیں جو غیر قانونی ہو ۔

نیشنل پارٹی کے رکن میررحمت صالح بلوچ نے اجلاس میں اپنی تحریک التواء پیش کرتے ہوئے کہا کہ پنجگور میں ہر گاڑی سے دو سو روپے ٹیکس وصول کیا جارہا ہے جو کہ غیر قانونی ہے اس عمل میں زراعت کا ڈپٹی ڈائریکٹر اور ڈپٹی کمشنر شامل ہے وزیرزراعت اس بات کا نوٹس لیں کہ جب وزیراعلیٰ خود کہہ چکے ہیں کہ چیک پوسٹوں پر کسی قسم کا بھتہ یا پیسے وصول نہیں کئے جائیں گے تو ان کی ناک کے نیچے یہ سب کیسے ہورہا ہے یہ عوام کا معاشی قتل کرنے مترادف عمل ہے اس میں ملوث افسران کے خلاف کارروائی کی جائے ۔

صوبائی وزیر زراعت شیخ جعفرخان مندوخیل نے کہا کہ کسی کو بھی غیر قانونی کام نہیں کرنے دیں گے ہم عوام کی مشکلات حل کرنا چاہتے ہیں نہ کہ ان میں اضافہ ۔ میں اسمبلی فلور پر اس کانوٹس لیتا ہوں اس میں ملوث افسران کے خلاف تحقیقات کی جائیں گی ۔ صوبائی وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ کسی بھی چیک پوسٹ پر بھتہ خوری کی اجازت نہیں دیں گے اس معاملے کی تحقیقات ہونی چاہئیں میں تحریک کے محرک کو یقین دلاتا ہوں کہ معاملے کی تحقیقات کرکے کارروائی ہوگی لہٰذا وہ اپنی تحریک واپس لے لیں میر رحمت صالح بلوچ نے صوبائی وزراء کی یقین دہانی کے بعد اپنی تحریک واپس لے لی۔

اجلاس میں میر سرفراز بگٹی ، میر عاصم کرد گیلو ، سید محمد رضا ، عبدالرحیم زیارتوال ، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ، سردار عبدالرحمان کھیتران ، ڈاکٹر شمع اسحاق بلوچ، یاسمین لہڑی ، سپوژمئی اچکزئی اور عارفہ صدیق کی مشترکہ قرار دادمعصومہ حیات نے ایوان میں پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ ضلع ہرنائی کے علاقے زرغون غر میں گیس کے بہت سے کنویں کامیاب ہوچکے ہیں لیکن پندرہ سال کے بعد ایک گیس کے کنویں کو کوئٹہ سے لنک کی اگیا ہے زرغون غر کے گیس کا شمار دنیا کی اعلیٰ کوالٹی گیس میں ہوتا ہے ماری گیس کمپنی نے زرغون گیس کے کنویں کو سوئی سدرن گیس کمپنی کے حوالے کیا ہے لیکن ماری گیس کمپنی نے مذکورہ کنویں کو حوالے کرتے وقت معدنی ایکٹ اور آئین پاکستان میں علاقے کے لئے طے شدہ مراعات کے لئے سوئی سدرن کو پابند نہیں کیا ہے اور علاقہ مکینوں کے لئے کچھ بھی طے نہیں کیا ہے جس کی وجہ سے سوشل سیکٹر ، سروسز اور خود اس ضلع کو گیس کی فراہمی اور دیگر مراعات سے محروم رکھا گیا ہے رائلٹی کی مد میں حساب کتاب کے بغیر برائے نام رائلٹی کے نام پر حقیر رقم مہیا کرنا ضلع ہرنائی کے عوام کی حق تلفی کے مترادف ہے قرار دادمیں صوبائی حکومت سے سفارش کی گئی تھی کہ وہ وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ وہ ماری گیس کمپنی کو پابند کرے کہ وہ زرغون غر کے عوام کو سوشل سیکٹر ، سروسز اور ان کے لئے گیس کی فراہمی کویقینی بنانے کے لئے عملی اقدامات اٹھائیں تاکہ علاقے کے عوام میں پائی جانے والی تشویش اور احساس محرومی کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔

قرار داد کی موزونیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے صوبائی وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ گیس کے حوالے سے ڈیرہ بگٹی میں ہمارا تجربہ تلخ رہا ہے زرغون غر کا مسئلہ تازہ ہے اس کو فوری توجہ دینی چاہئے منصوبے پر کام کرنے والی ماری پور گیس کمپنی سے عوام کے حقوق پر بات ضرور ی ہوچکی ہے آئین کے تحت وہاں سے نکلنے والی گیس پر سب سے پہلے ہرنائی پھر پورے صوبے اور اس کے بعد دوسروں کا حق بنتا ہے انہوں نے تجویز دی کہ قرار داد میں ترمیم کرتے ہوئے ترقیاتی کاموں کے حوالے سے کمیٹی میں علاقے کے منتخب عوامی نمائندے اور ڈپٹی کمشنر کو بھی شامل کیا جائے جو یہ دیکھے کہ علاقے کی ترقی کے لئے پیسے کہاں خرچ ہورہے ہیں ۔

اور وہ کمیٹی فنڈز کے درست استعمال کو یقینی بنائے کیونکہ اسلام آباد میں بیٹھ کر ہماری ترقی کے لئے جو منصوبے بنائے جاتے ہیں وہ ہماری ضرورت کے مطابق نہیں ہوتے انہوں نے کہا کہ ماڑی پور کمپنی گیس تلاش اور نکالتی ہے جبکہ سوئی سدرن گیس کمپنی اسے فروخت کرتی ہے ان دونوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی آمدن کا آئین کے مطابق مختص حصہ علاقے کی ترقی کے لئے استعمال کریں ۔

اس موقع پر انہوں نے آفیشل گیلری میں مختلف محکموں کے سیکرٹریز کی عدم موجودگی پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کب تک ہم ان کا یہ رویہ برداشت کرتے رہیں گے آج تین قرار داد یں ایک محکمے سے متعلق ہیں اورمذکورہ محکمے کے سیکرٹری بھی یہاں موجود نہیں ہیں ہمارا تو عوام انتخابات میں احتساب کرتے ہیں سرکاری افسران کو بھی احتساب کے دائرے میں لانا ہوگا اس سلسلے میں وزیراعلیٰ سے بات کروں گا انہوں نے سپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس کا نوٹس لیں جس پر سپیکر نے کہا کہ میں بارہا س بات کا نوٹس لے کر رولنگ دیتی رہی ہوں چیف سیکرٹری کو بھی خط لکھا اس ایوان کوعزت اس کے ارکان نے کرانی ہے میری رولنگ پر بھی عمل حکومت نے کرنا ہے میں ایک موقع دے رہی ہوں جس کے بعد اپنی رولنگ دوں گا ۔

وزیراعلیٰ سے بھی بات کروں گی ۔ میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ صورتحال یہ ہے کہ کابینہ کے اجلاس میں فیصلہ ہوا تھا کہ وائی ڈی اے سے مذاکرات کے نتیجے میں ڈاکٹروں کے لئے چھ سو آسامیاں مشتہر کریں گے مگر ایک ایڈیشنل سیکرٹری رکاوٹ بن گئے ہیں ۔حکومت ہم نے چلانی ہے بیورو کریٹس ہمارے ماتحت ہیں اور ان کو ماتحت کے طور پر کام کرنا ہوگا پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سید لیاقت آغا نے کہا کہ جو قرار داد زرغون کے حوالے سے زیر بحث ہے اس پر پہلے بھی قرار داد منظور ہوچکی ہے اور سپیکر کی جانب سے مذکورہ منصوبے پر کام کرنے والی کمپنی کے حکام کو طلب کیا گیا تھا جنہوں نے یہاں آکر وعدہ کیا تھا کہ وہ قواعد کے تحت علاقے میں ترقیاتی کام کرائیں گے اور انہوں نے یہ بات بھی تسلیم کی تھی کہ زرغون سے نکلنے والی گیس پر پہلے وہاں کے عوام کا حق ہے مگر پھر انہوں نے کوئی کام نہ کیا ۔

صرف تین کمروں پرمشتمل ایک سکول کی عمارت تعمیر اورا یک واٹر کولر نصب کرکے اس کو ترقی کا نام دیا گیا دوسری جانب صورتحال یہ ہے کہ کوہاٹ میں دریافت ہونے والی گیس وہاں 35کلو میٹر کے علاقے میں مفت فراہم کی جارہی ہے جبکہ یہاں ڈیرہ بگٹی کے عوام نصف صدی کے بعد بھی گیس سے محروم ہیں دوسری جانب ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ ہمارے صوبے سے کتنی گیس نکل رہی ہے اس کی قیمت کیا ہے ،ہمارے گیس کی قیمت دوسرے صوبوں سے کم ہے ہمیں گیس کمپنیوں کی آمدن کا علم تک نہیں 1987ء میں پی پی ایل کو فروخت کیا جارہا تھا تو نواب اکبرخان بگٹی اس کی راہ میں حائل ہوئے جس کی وجہ سے یہ ممکن نہ ہوسکا انہوں نے زور دیا کہ بلوچستان کو دوسرے صوبوں کے برابر گیس کی قیمت اور رائلٹی دی جائے اور جہاں سے گیس نکل رہی ہے وہاں دس کلو میٹر کے علاقے میں عوام کو مفت گیس فراہم کی جائے ۔

میر عبدالکریم نوشیروانی نے کہا کہ یہ قرار داد قومی اسمبلی اور سینٹ میں لائی جانی چاہئے تھی وہاں ہمارے نمائندے موجود ہیں انہیں اس قرار داد پر عملدرآمد کرانا چاہئے ہمیں تو آج تک سیندک اور ریکوڈک سے بھی صوبے کو کچھ نہیں مل رہا ۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے پارلیمانی لیڈر عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ بیورو کریسی کی ایوان میں عدم موجودگی پر بارہا سپیکر کی رولنگ آچکی ہے اس کا نوٹس بھی لیا جا چکا ہے مگر مختلف محکموں کے سیکرٹریوںکو یہ علم تک نہیں ہوتا کہ ایوان میں کس موضوع پر بات ہونی ہے حالانکہ وزراء کو بیورو کریٹس نے بریفنگ دینی ہوتی ہے سب سے پہلے چیف سیکرٹری کو یہاں ہونا چاہئے وہ آئیں گے تو دیگر تمام سیکرٹری بھی آئیں گے انہوں نے کہا کہ آج وفاقی وزیر ریلوے سعد رفیق کا فون آیا تھا اور ان کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال میں ہر نائی سبی ریلوے ٹریک پر سروس شروع نہیں کی جاسکتی ہے کیونکہ ریلوے ٹریک کی حفاظت کے لئے سڑک کی تعمیر کاکام ابھی تک التواء کا شکار ہے حالانکہ دو مرتبہ مذکورہ سڑک کے لئے فنڈز منظورکرچکے ہیں مگر پی اینڈ ڈی کی جانب سے رکاوٹیں ڈالی جاتی ہیںجس کی وجہ سے آج بھی سبی تک روڈ کے ذریعے کوئی رابطہ نہیں اسکالر شپس کے لئے ایوان سے کوئی طریقہ کار طے کرنا چاہئے انہوں نے کہا کہ پی ایس ڈی پی میں جتنے منصوبے شامل کئے جاتے ہیں وہ ایوان اور کابینہ سے منظور ہوتے ہیں اگر ان پر کام نہیں ہوگا تو پھر ہم آگے کیسے چل سکتے ہیں ہم نے چیزوں کو ٹھیک کرنا اور چلانا ہے بیورو کریسی نے رویہ تبدیل نہ کیا تو پھر ہم احتجاج کاآخری راستہ اختیار کریں گے کیونکہ عوام کے منتخب نمائندے ہم ہیں اور ان کو ہماری بات سننی ہوگی بیورو کریسی کو نہیں بلکہ اس ایوان اور حکومت کو فیصلوں کا اختیار ہے 1952ء سے ڈیرہ بگٹی سے نکلنے والی گیس سے وہاں کے عوام محروم ہیں ہمارے صوبے سے نکلنے والی گیس کا کوئی حساب نہیں ہماری گیس سستی دوسرے صوبوں کی مہنگی ہے ہمارے ہاں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے گیس تلاش اور عوام کو فراہم کرنے والی کمپنیوں کے حکام کو یہاں بلا کر ان سے بات کی جائے اور ان کو بریفنگ دینے کا پابند بنایا جائے تاکہ صورتحال واضح ہو صوبائی وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ پارلیمنٹ سپریم ہے جہاں سے قانون سازی ہوتی ہے بجٹ یہاں سے منظور کیا گیا تمام مراحل اور قواعدو ضوابط پورے کرنے کے بعد ایک منصوبہ بنتا ہے قانون سب کے لئے یکساں ہونا چاہئے ہم نے اپنے عوام کا علاج کرانا اور بچوں کو پڑھانا ہے ہمارے جتنے وسائل ہیں ان میں سب کا یکساں علاج اور سب کو یکساں تعلیم فراہم کرانا مشکل ہے تاہم جتنے وسائل ہیں ان میں ہم زیادہ سے زیادہ لوگوں کے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں انہوں نے کہا کہ صوبے میں زرعی ترقی کے لئے بلڈوزر گھنٹے ضروری ہیں کسی ایک منصوبے جو کسی ایک نام سے منسوب ہوں اسے انفرادی نہیں کہا جاسکتا ہم عوام کو جواب دہ ہیں مگر ہم نے اپنے عوام کو سہولیات فراہم کرنے کے لئے قواعد ضوابط کے مطابق کام کیا ہے پی اینڈ ڈی کا ایک مخصوص گروپ جو سابق دور میں بھی حکومت کے موقف کے خلاف موقف اختیار کرتا آیا ہے اب بھی اسی مخصوص گروپ نے پی اینڈ ڈی کے منصوبوں پر اعتراض اٹھایا ہے کہ یہ انفرادی منصوبے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے انہوں نے کہا کہ ہم نے خیبرپشتونخوا کی طرح اپنے رولزآف بزنس طے کرنے ہیں اور نئے قانون بنانے ہیں اس موقع پر سپیکر نے کہا کہ عوامی نمائندوں نے مل کر صوبے کو چلانا ہے اور اس حوالے سے سب کا کردار ہونا چاہئے انہوں نے کہا کہ یہ امر افسوسناک ہے کہ منتخب عوامی نمائندوں کا اکثر اوقات امیج خراب کرکے پیش کیا جاتا ہے کہیں بھی کوئی غلط کام ہو اس کو عوامی نمائندوں سے جوڑ دیا جاتا ہے عوامی نمائندے سوسائٹی کا حصہ ہیں اور عوام کی ترقی و خوشحالی کے لئے کام کرتے ہیں ان کا غلط امیج پیش کرنے سے ان کی حوصلہ شکنی اور مورال گرتا ہے عوامی نمائندوں کو بیٹھ کر اس ایوان کی توقیر و احترام کے لئے قانون سازی کرنی ہوگی انہوں نے کہا کہ ہم ایڈووکیٹ جنرل سے ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے مشاورت کرکے ان کی رائے لیں گے کہ اس سلسلے میں کس طرح آگے بڑھ سکتے ہیں ۔

بعدازاں ایوان نے قرار داد کی متفقہ طور پر منظور کرلی ۔ اجلاس میں ایل پی جی گیس پلانٹ کی تنصیب سے متعلق مشترکہ قرار داد پیش کرتے ہوئے >صوبائی وزیر آغا سید رضانے کہا کہ بلوچستان کے اکثر علاقے گیس جیسی نعمت سے محروم ہیں جس کی وجہ سے لو گ اپنی ایندھی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے قیمتی جنگلات کاٹ رہے ہیں جو کہ انسانی زندگی کے لئے نہایت ضروری ہیں ماحولیات اور انسانی زندگی کے لئے ضروری جنگلات کا بچائو صرف اور صرف گیس کی فراہمی سے ہی ممکن ہے اس سلسلے میں وفاقی حکومت کی جانب سے ڈویژن ، ضلع ، تحصیل ہیڈ کوارٹرز اور ٹائون شپ میں ایل پی جی گیس پلانٹ لگانے کا منصوبہ منظور ہوچکا ہے پراجیکٹ ڈائریکٹر کی جانب سے سروی/فزیبلٹی مکمل ہونے پر کمپنیوں کو ٹینڈرز کے لئے کوالیفائی کرنے کے بعد ٹینڈرز کی تاریخ کا اعلان بھی مشتہر کیا جاچکاتھا لیکن اس میں کچھ اضلاع اور تحصیلوں کو نظر انداز کیا گیا ہے ڈائریکٹر دفترٹینڈرنگ سے پہلے کمپنیوں کو کوالیفائیڈ کرنے کے لئے بعدا عتراضات کام کے التواء کے مترادف ہے۔

اس لئے صوبائی حکومت وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ ایل پی جی گیس پلانٹ کی تنصیب کے لئے فوری طور پر ٹینڈرز کو مکمل کرنے کے لئے عملی اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ صوبے کے عوام میں پائی جانے والی احساس محرومی کا خاتمہ ممکن ہوسکے اور لوگوں کو آسانی سے ایل پی جی گیس میسر ہو ۔قرار داد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے نیشنل پارٹی کی ڈاکٹر شمع اسحاق نے کہا کہ بلوچستان وسائل سے مالا مال صوبہ ہے لیکن پھر بھی پسماندگی کا شکار ہے پوری دنیا میں جس علاقے سے وسائل نکلتے ہیں اس پر اسی کا حق ہوتا ہے مگر بلوچستان کے وسائل پر وفاق نے اپنا حق رکھا ہوا ہے اور جتنے بھی بڑے منصوبے ناکام ہوئے ہیں اس کی ذمہ داری وفاق پر عائد ہوتی ہے ایل پی جی گیس فراہمی کا منصوبہ اہمیت کا حامل منصوبہ ہے کیونکہ گیس نہ ہونے کی وجہ سے درختوں کی کٹائی ہورہی ہے جس سے ماحولیات پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔

ابھی ڈاکٹر شمع اسحاق بات کررہی تھیں کہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی عارفہ صدیق نے کورم کی نشاندہی کردی جس پر پہلے پانچ اور پھر پندرہ منٹ کے لئے ملتوی کردیا گیا کورم پورا ہونے پر اجلاس کا ایک بار پھر آغا زہوا تو جمعیت العلماء اسلام کے سردار عبدالرحمان کھیتران نے قرار داد پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان زراعت سے وابستہ صوبہ ہے لیکن گیس نہ ہونے کی وجہ سے درختوں کی بڑی تعداد میں کٹائی کی جارہی ہے جس سے قدرتی چراہگاہیں اور جنگلات کو خطرناک حد تک نقصان پہنچا ہے وزیراعظم نے ہر ضلع میں ایل پی جی پلانٹ لگانے کا اعلان کیا تھا ہم نے اس سلسلے میں کم سے کم ریٹ پر زمین بھی فراہم کی لیکن اب مخصوص لابی کی وجہ سے منصوبہ تاخیر کا شکار ہوگیا ہے عوامی نمائندوں کی ساکھ کو متاثر کرکے انہیں رسوا کیا جارہا ہے انہوں نے کہا کہ کوئی بھی منصوبہ انفرادی نہیں ہوتا تمام منصوبے اجتماعی نوعیت کے ہوتے ہیں اور یہ میں عدالت میں ثابت کرنے کے لئے تیار ہوں ۔

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے ڈاکٹر حامدخان اچکزئی نے کہا کہ اسی فیصد صوبہ گیس سے محروم ہے قلعہ عبداللہ میںپلانٹ کے لئے زمین فراہم کردی گئی ہے مگر اب تک کام شروع نہیں ہوسکا پشتونخوا میپ کے رکن آغا لیاقت نے کہا کہ وفاقی حکومت نے نومبر2016ء میں 16اضلاع میں ایل پی جی پلانٹ لگانے کی منظوری دی تھی جس کے بعد اس پر کام سوئی سدرن گیس کمپنی کے سپرد کیا گیا لیکن اب یہ کام صرف 7سی8اضلاع تک محدود کردیا گیا ہے اور ان اضلاع میں بھی کام مختلف بہانوں سے روک دیا گیا ہے انہوں نے کہا کہ پری کوالیفائی کرنے والی کمپنیوں میں بلوچستان کی کوئی کمپنی شامل نہیں حالانکہ اس وقت صوبے کی9کمپنیاں اس شعبے میں بہترین کام کررہی ہیں انہوں نے نشاندہی کی کہ بیرون ملک سے ایل پی جی منگوائی جارہی ہے جو کہ انتہائی مہنگے داموں خریدی جائے گی جس سے نقصان پہنچے گا جبکہ اگر مقامی کمپنیوں کے ذریعے یہ کام کیا جائے تو اس سے اخراجات میں کمی واقع ہوگی ۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ منصوبے کو فوری طو رپر شروع کرکے اختتام کی مدت بھی بتادی جائے اور ان ترامیم کو قرار داد میں شامل کیا جائے ۔ اپوزیشن لیڈر عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ پوری دنیا ماحول بہتر بنانے کے لئے اقدام کررہی ہے پہلے کہا گیا کہ دور دراز علاقے ہیں صرف ڈویژنل اور ٹائون ہیڈ کوارٹر کی سطح پر گیس فراہم کی جائے گی لیکن اس کے باوجود منصوبہ تاخیر کا شکار ہے آخر کیا وجہ ہے کہ سروے اور فزیبلٹی مکمل ہونے کے باوجود منصوبے پر کام نہیں ہورہا خدشہ ہے کہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کام کو التواء میں ڈالا جارہا ہے متعلقہ حکام کو سپیکر چیمبر میں طلب کرکے ان سے اس معاملے پر تفصیلات لی جائیں جس کے بعد پینل آف چیئر پرسن کی رکن شاہدہ رئوف نے ایوان کی مشاورت سے قرار داد کو ترامیم کے ساتھ منظور کرنے کی رولنگ دی ۔

اجلاس میں نیشنل پارٹی کی ڈاکٹر شمع اسحاق نے مشترکہ قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن (نیوٹیک)کا قیام 90ء کی دہائی مین عمل میں لایاگیا تھا جس مقصد غریب ہونہار طلباء وطالبات کی تعلیم و تربیت اور ان کو بہتر روزگار فراہم کرنا تھا لیکن جس مقصد کے لئے یہ ادارہ قائم ہوا تھا اس کا اب تک کوئی خاطرخواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا اور یہ ادارہ اب دیگر محکموں سے کم اجرت پر ملازمین کو تربیت کرانے کے لئے مستعار لے رہا ہے جس سے ادارے کی کارکردگی متاثر ہونے کے ساتھ ہونہار طلباء وطالبات کو معیار ی تربیت کے حصول میں شدید مشکلات کا سامنا ہے ۔

صوبائی حکومت وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ نیوٹیک کا قیام جس مقصد کے لئے عمل میں لایا گیا تھا اس پر عملدرآمد کرانے کے لئے ضروری اقدامات کئے جائیں ۔قرار داد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر شمع اسحاق نے کہا کہ جب نیوٹیک کا قیام عمل میں لایا گیا تو اس کا بنیادی مقصد نوجوانوں کو ہنر مند بنانا تھا مگر بلوچستان میں اس کے برعکس ہوا۔ بلوچستان معدنی وسائل سے مالا مال اور پھر گوادر اور سی پیک جیسے منصوبے بننے جارہے ہیں ایسے میں ضرورت اس بات کی تھی کہ اس کا دائرہ کار تحصیل کی سطح تک عمل میں لایا جاتا مگر ایسا نہ ہوا بلکہ اس میں صرف اثر رسوخ رکھنے والوں کو داخلے دیئے گئے دوسری جانب ڈیپوٹیشن پر پہلے سے برسر روزگار ملازمین کو وہاں پرلایا گیا جس کی وجہ سے بے روزگار نوجوان نظر انداز ہوئے تھوڑے بہت نوجوانوں کو داخلے دیئے گئے تو اس کو سکالرشپس پوری نہیں دی گئی انہو ں نے زور دیا کہ تمام مراحل کو شفاف نہ بنانے اور میرٹ کی دھجیاں اڑانے کی تحقیقات کرائی جائیں اور اگر کوئی اس کا ذمہ دار ہو تو اس کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے ۔

نیشنل پارٹی کی یاسمین لہڑی نے کہا کہ نیوٹیک کے مقاصد پر اگر درست عمل کرتے ہوئے تربیت کے ادارے قائم کئے جاتے اور نوجوانوں کو ہنر مندبنایا جاتا تو آج ہم بے روزگاری اور نوجوانوں کے ہنر مندبنانے کارونا نہ روتے وفاقی اور صوبائی حکومت کی جانب سے ووکیشنل سینٹرز کے قیام کی بجائے ان کے فنڈز کا غلط استعمال کیا گیا بلوچستان میں کوئی کام نہ ہوا اس صورتحال کو سنجیدگی سے لیا جائے تاکہ نوجوانوں کو زیادہ تربیت یافتہ بنا کر انہیں روزگار کی فراہمی یقینی بنائی جاسکے ۔

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے پارلیمانی لیڈر عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ سی پیک جیسا بہت بڑا منصوبہ آرہا ہے جس کے لئے ہنر مند افرادی قوت کی ہمارے پاس کمی ہوگی نوجوانوں کو ہنر مند بنانے کے لئے صوبے میں قائم ٹیکنیکل ٹریننگ سینٹرز یا بند ہیں یا بند ہونے کے قریب ہیں اگر ہم نے اپنے نوجوانوں کو ہنر مند نہ بنایا تو انہیں باہر سے آنے والے سرمایہ کار اور کمپنیاں روزگار نہیں دیں گی پھرچاہے ہم جتنا احتجاج کریں ہماری بات سننے والا کوئی نہیں ہوگا اپنے نوجوانوں کو تربیت یافتہ بنائے بغیر ہم انہیں دوسروںکے مقابلے کے قابل نہیں بناسکتے اس حوالے سے ہمارے جتنے تربیتی ادارے ہیں ان سے بات کرنی ہوگی ایک کمیٹی بنا کر اسلام آباد بھی جائیں گے اور متعلقہ حکام سے بات کریں گے کہ ہمارے نوجوانوں کو تربیت یافتہ بنایا جائے اس وقت بھی ہمارے بیرون ملک موجود لوگوں کی جانب سے بھاری زر مبادلہ ، محنت مزدوری کرکے بھیجاجاتا ہے مگر وہ بھی صرف مزدور ہیں وہ بھی کوئی ہنر مند نہیں نوجوانوں کو ہنر مند بنا کر ہم سی پیک میں اپنے نوجوانوں کو روزگار دلانے کے ساتھ ساتھ بے روزگاری کا خاتمہ بھی کرسکیں گے ۔

صوبائی وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی نے حکومت کی جانب سے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں جو بھی کمیٹی بنائی جائے گی ہم اس میں شامل ہوں گے بعدازاں ایوان نے قرار داد متفقہ طور پر منظور کرلی اجلاس میں مسلم لیگ (ن ) کے محمد خان لہڑی نے مشترکہ قرار داد ایوان میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ نصیرآباد ڈویژن جو کہ ایک زرعی علاقہ ہے اور پورے بلوچستان میں سب سے زیادہ گندم کی فصل وہاں کاشت ہوتی ہے چونکہ نصیرآباد ڈویژن گندم کی فصل مارچ کے مہینے میں تیار ہوتی ہے اور اس کی کٹائی25مارچ سے شروع ہوتی ہے گندم کی فصل تیار ہونے کے بعد حکومت گندم کی خریداری کا پلان بناتی ہے جبکہ ملک کے دیگر صوبے گندم خریداری سے متعلق گندم تیار ہونے سے پہلے اپنا پلان بناتے ہیں بہ ایں وجہ حکومت بلوچستان مارچ کے بجائے جون میں گندم کی خریداری شروع کرتی ہے جس کی وجہ سے علاقے کے زمینداروں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے قرار داد میں صوبائی حکومت سے سفارش کی گئی کہ وہ گندم کی خریداری ماہ مارچ میں شروع کرنے کے لئے عملی اقدامات اٹھائے تاکہ علاقے کے زمینداروں کو درپیش مشکلات کا خاتمہ ممکن ہوسکے قرار داد پیش ہونے کے بعد صوبائی وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی نے یقین دہانی کرائی کہ وہ آئندہ کابینہ کے اجلاس میں اس مسئلے کو دوبارہ اٹھائیں گے اس حوالے سے وزیراعلیٰ اور مشیر خوراک سے بھی بات کی جائے گی اس لئے معزز رکن اپنی قرار داد واپس لیں جس پر قرار داد کے محرک محمدخان لہڑی نے حکومتی یقین دہانی پر قرار داد واپس لے لی۔

نیشنل پارٹی کے میر خالد لانگو نے پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے کہاکہ ضلع قلات کے کیڈٹ اوربی آرسی کالجز میں دو نشستیں مختص تھیں لیکن شہید سکندر آباد ضلع بننے کے بعد یہ نشست ایک کردی گئی ہے جو کہ علاقے کے لئے ناکافی ہے حکومت اس پر نوٹس لے جس پر صوبائی وزیر سی اینڈ ڈبلیو میر عاصم کردگیلو نے یقین دہانی کرائی کہ ضلع قلات کی دو نشستیں بحال کردی جائیں گی ۔ بعدازاں اجلاس 27مارچ سہ پہر چار بجے تک کے لئے ملتوی کردیا گیا ۔