چیف جسٹس نے پنجاب کی 50کمپنیز میں افسران کی بھاری تنخواہوں کا ازخود نوٹس لے لیا

کسی کو بندر بانٹ کی اجازت نہیں دی جائے گی، اسپتالوں کے دورے کرتا رہوں گا کسی کو اعتراض ہے تو ہوتا رہے،چیف جسٹس میاں ثاقب نثار

ہفتہ 24 مارچ 2018 19:15

چیف جسٹس نے پنجاب کی 50کمپنیز میں افسران کی بھاری تنخواہوں کا ازخود ..
لاہور۔24 مارچ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 24 مارچ2018ء) چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ کسی کو بندر بانٹ کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ہفتہ کو سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس کی سربراہی میں دو رکنی خصوصی بینچ نے ریٹائرڈ افسروں کو بھاری مراعات کے ساتھ بھرتیوں کے خلاف کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے پنجاب کی 50کمپنیز میں افسران کی بھاری تنخواہوں کا ازخود نوٹس لے لیا اور ساتھ ہی چیف سیکریٹری سے مراعات کی تفصیلات بھی طلب کرلیں۔

سماعت کے دوران چیف سیکریٹری پنجاب کیپٹن ریٹائرڈ زاہد سعید نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب حکومت نے 50کمپنیاں تشکیل دیں ہیں ،جس پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے سب کچھ پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کردیا، اگر آپ سے کام نہیں ہوتا تو حکومت چھوڑ دیں، عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ ضائع نہیں ہونے دیا جائے گا۔

(جاری ہے)

دوران سماعت چیف جسٹس نے ایک سینئر پروفیسر ڈاکٹر کو روسٹرم پر بلا لیا اور ان سے ان کی تنخواہ کے بارے میں استفسار کیا تو ڈاکٹر نے جواب دیا کہ میں پونے دو لاکھ تنخواہ لیتا ہوں،ڈاکٹر نے عدالت کو بتایا کہ باہر سے آنے والے ڈاکٹرز کو 20 ،20 لاکھ روپے دیئے جاتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ صوبے کا سب سے بڑا افسر چیف سیکریٹری 2 لاکھ روپے تنخواہ لے رہا ہے، ریٹائرڈ افسران ہائیکورٹ کے جج سے زائد تنخواہ کس قانون کے تحت لے رہے ہیں۔جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ کسی کو بندر بانٹ کی اجازت نہیں دی جائے گی۔علاوہ ازیں چیف جسٹس نے کڈنی اینڈلیورٹرانسپلانٹ انسٹی ٹیوٹ میں بھاری تنخواہوں پر ڈاکٹروں کی بھرتی کا بھی نوٹس لیتے ہوئے نجی سیکٹرکے افسران کو دی گئی مراعات کی تفصیلات طلب کرلیں۔

علاوہ ازیں عدالت نے طیب اردگان ٹرسٹ کے تحت چلائے جانے والے اسپتالوں کی تفصیلات بھی طلب کر لیں۔دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹروں کو 2 لاکھ تنخواہ دی جارہی ہے، اسٹیٹ آف دی آرٹ اسپتالوں میں 12 لاکھ تنخواہ کس قانون کے تحت دی جارہی ہے۔ اس پر چیف سیکرٹری پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹر پرائیویٹ پریکٹس کرتے ہیں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹروں کو اتنی تنخواہیں دیں، ڈاکٹروں کو اچھی تنخواہ ملے تو کوئی پرائیویٹ پریکٹس نہ کرے۔

ڈاکٹروں کی پرائیویٹ پریکٹس پر پابندی لگا دیتے ہیں،جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ہم ابھی حکم جاری کرتے ہیں اور ڈاکٹروں کی پرائیویٹ پریکٹس پر پابندی لگا دیتے ہیں، پھر ہم ڈاکٹروں کو پابند بنائیں گے کہ وہ مکمل ڈیوٹی سر انجام دیں ،آپ ڈاکٹرز کی عزت کریں جو یہاں رہ رہے ہیں۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے حکم دیا کہ جتنی دوائیوں کے ٹیسٹ التو ا میں ہیں انہیں دن رات لگا کر ختم کریں اورپندرہ دن میں رپورٹ پیش کریں۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اسپتالوں کے دورے کرتا رہوں گا ۔