کراچی کے تحفظ اور ترقی کے لیے آگے بڑھیں گے،مولانا فضل الرحمن

آج امت مسلمہ پر ہر طرف سے حملہ کیا جا رہا ہے،سعودی عرب پر جنگ مسلط کرنے کی سازش کی جا رہی ہے،تمام متعصبانہ قوتوں کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ گھر بیٹھ جائیں،مذہبی لوگوں کو سیاسی قوت بننے اور جمہوری راستے سے اقتدار میں آنے سے روکا جا رہا ہے،قائد جے یوآئی کا اسلام زندہ باد کانفرنس سے خطاب

جمعرات 22 مارچ 2018 23:50

ذ* کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 22 مارچ2018ء) جمعیت علمائے اسلام کے امیر اور متحدہ مجلس عمل کے صدر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ کراچی پاکستان کی معاشی شہ رگ ہے اور ہمارا عزم ہے کہ ہم اس شہ رگ کو کاٹنے کی کسی کو اجازت نہیں دیں گے بلکہ اس کے تحفظ اور ترقی کے لیے آگے بڑھیں گے۔ کراچی کو سیاسی میدان میں فتح کرنے کی حکمت عملی اپنا لی ہے۔

آج سے سندھ جا رہا ہوں۔ اس طرح یہ سفر پورے ملک میں جاری رہے گا۔ آج امت مسلمہ پر ہر طرف سے حملہ کیا جا رہا ہے۔ سعودی عرب پر جنگ مسلط کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ جب 2001 ء کے بعد ایک آمر نے سب کچھ تسلیم کیا اور پاکستان کو میدان جنگ بنانے کی سازش کی تو علماء نے اس سازش کو ناکام بنا دیا۔ تمام متعصبانہ قوتوں کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ گھر بیٹھ جائیں۔

(جاری ہے)

ہمیں آپ کی ضرورت نہیں۔ ایران آج ہمارے ساتھ نہیں ہے۔ وہ بھارت کو اپنا برادر ملک کہتا ہے۔ اس کا صدر سال میں دو بار اس کا دورہ کرتا ہے۔ ہم نے سوچا کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں۔ مذہبی لوگوں کو سیاسی قوت بننے اور جمہوری راستے سے اقتدار میں آنے سے روکا جا رہا ہے۔ یہ عالمی سازش ہے۔ اس سازش کو ناکام بنانا ہے۔ آج نئے بیانیہ کی بات کی جا رہی ہے۔

ایک مرتبہ پھر ہم سے وفاداری کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ہمیں شک کی نگاہ سے نہ دیکھا جائے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گذشتہ شب کراچی میں جمعیت علمائے اسلام کراچی کے تحت مزار قائد سے متصل باغ جناح میں اسلام زندہ باد کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ کانفرنس سے جمعیت علمائے اسلام کے سیکرٹری جنرل اور سینیٹ سابق ڈپٹی چیئرمین مولانا عبدالغفور حیدری ، وفاق المدارس کے صدر مولانا عبدالرزاق اسکندر ، جمعیت علمائے پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل شاہ اویس نورانی ، سابق وزیر اعلی خیبر پختونخوا اکرم خان درانی ، جماعت اسلامی کے مرکزی نائب امیر اسدللہ بھٹو اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔

متحدہ مجلس عمل کے صدر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے۔ ہمارا یہ عزم ہے کہ ہم کسی کو شہ رگ کاٹنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اس معاشی شہ رگ کو تحفظ دینا اور اس کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے اس کے امن و سکول اور پر امن ماحول چاہئے۔ ہم کراچی کے امن کو بحال کریں گے۔ کراچی کے شہریوں کو امن دیں گے۔ یہاں کے مزدوروں کسانوںکو پر امن ماحول دیں گے۔

اسی سے معیشت میں بہتری آئے گی۔یہی قرآن کا پیغام ہے۔ جس طرح پاکستان ایک حقیقت ہے ، اسی طرح پاکستان کی تمام اکائیاں بھی ایک حقیقت ہے۔ جس طرح ہم پاکستان کو خود مختار دیکھنا چاہتے ، اسی طرح صوبوں کو بھی ان کے وسائل کا مالک دیکھنا چاہتے ہیں۔ اگر ہم نے اس پر عمل کیا ، تب جا کر محرومیوں کا خاتمہ ہو گا۔ شکایت کا ازالہ ہو گا اور تب ہی ملک کو متحد رکھا جا سکتا ہے۔

ملک کو مختلف تعصبات نے شدید نقصان پہنچایا ہے اور اسی وجہ سے عالمی قوتوں نے بھی ہمیں اپنا زیر نگیں رکھا ہوا ہے۔اس ملک کو علاقائی تعصبات نے نقصان پہنچایا ہے۔ اگر ہم آج بھی غلام ہیں ، ہماری معیشت ، ہمارے ملکی ادارے ، دفاعی ادارے عالمی دباؤ میں ہیں تو آئیے ایک اسلام وہ نظام ہے ، جو ہمیں آزادی اور خود مختاری کا درس دیتا ہے۔ ہم اسلام کو بطور مملکت نظام اپنائیں اور اپنی آزادی اور خود مختاری برقرار رکھیں۔

ہم نے اسلامی اصولوں کے مطابق اپنے سفر کا آغاز کیا تو دنیا کی کوئی قوت ہمیں آزادی سے نہیں روک سکتی۔ پاکستان کی مذہبی سیاسی قیادت نے ہمیشہ مذہبی، لسانی ، قومی اور علاقائی تعصبات کو ہمیشہ مسترد کیا ہے۔ کراچی منی پاکستان ہے۔یہاں پاکستان کا ہر زبان بولنے والا کاروبار کرتا ہے۔ ہم کسی بھی زبان بولنے والے کو ایک ہی برادری سمجھتے ہیں ، جو اسلام کی برادری ہے۔

ہمیں یہاں سے یہ پیغام دینا ہے کہ یہاں تمام تعصبات کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے نام پر اسلام اور مسلمانوں پر حملہ کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ایک آمر نے امریکا کے حکم پر اس ملک کو مشکلات سے دوچار کیا اور ایک جنگ میں مبتلا کر دیا۔ اس موقع پر بھی جمعیت علمائے اسلام نے 25 ہزار علمائ کو پشاور میں جمع کیا اور اس عزم کا اعلان کیا کہ وہ ریاست اور آئین سے وفاداری کا اعلان کرتے ہوئے آئین کے اندر رہتے ہوئے سیاسی جدوجہد کریں گے اور ریاست کے خلاف کسی بھی مسلح جدوجہد کو قبول نہیں کیا جا سکتا ہے۔

مگر ریاست نے اس کو قبول نہیں کیا بلکہ یہ کہا گیا کہ دیوبند مکتبہ فکر میں شدت پائی جاتی ہے۔ جس کے بعد ہم نے علمائ کو لاہور میں بھی جمع کیا اور وفاق المدارس کے تحت ایک مرتبہ پھر علماء کو جمع کرکے اپنی وفاداری کا عزم دیا۔ ہم سے بار بار وفاداری کا حلف لیا جا رہا ہے۔ لیکن ہمارے مدرستے ، ہماری داڑھی اور پگڑی کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اعتماد دو طرفہ ہوتا ہے۔ ہم ریاست سے شکوہ کا حق رکھتے ہیں لیکن ریاست پر اعتماد کرتے ہیں۔ ریاست بھی ہم پر اعتماد کرے۔ ہم جمہوری راستے سے جدوجہد کرنے کے قائل ہیں۔ مسلح جدوجہد پر یقین نہیں رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 1973ء کے آئین کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل آئینی ادارہ ہے۔ 35 سال سے اس کی شقوں پر عمل کیوںنہین ہو رہا ہے ، اس پر قانون سازی کیوں نہیں کی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم جمہوریت اور آئین کے راستے سے ملک میں اسلام کا نفاذ چاہتے ہیں اور اگر مجھے اس راستے سے ایسا ممکن نظر نہیں آتا ہے تو اعتماد کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ ریاست ہم پر بھی اعتماد کرے۔ ہماری وفاداری پر شک نہ کرے۔ علماء کی داڑھی اور مدارس پر شق نہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ ریاست ہم پر بھی اعتماد کرے۔ اگر ایسا نہیں ہو گا تو پھر شک کو فائدہ ہوتا ہے اور شک غلط فہمیوں کو پیدا کرتا ہے۔

عالمی قوتوں کا ایجنڈا ہے کہ دیندار قوتوں کو سیاسی قوت بننے نہیں دیا جائے اور نہ ہی حکومت کرنے کا حق ہے۔ اسلام کے نام پر صرف سیکولر طبقے کو حکومت کا حق دیا جائے۔ انہوں نے کہاکہ عالمی سامراج نے اسی ایجنڈے کے تحت اسرائیلیوں نے فلسطین پر حملہ کیا اور آج مسلمانوں کے خلاف دنیا بھر میں جو ہو رہا ہے وہ اسی کا تسلسل ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں داڑھی والوں نے اسلامی ریاست کی بات تو ان کا کیا حال ہوا ، سب نے دیکھا۔

وہ قوتیں پاکستان میں بھی اسی طرح کے حالات پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ مگر ہم نے اس کو ناکام بنا دیا۔ انہوں نے کہا کہ پاپائے روم نے معاشی نظام کے حوالے سے ایک کمیٹی قائم کر دی ہے۔ اس کمیٹی نے رپورٹ دی ہے کہ اگر منصفانہ معاشی نظام قائم کرنا ہے تو قرآن کے نظام کو نافذ کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کشمیر پر ظلم کی انتہا کر رہا ہے۔

ایل او سی اور سیالکوٹ کی سرحد پر روز حملے کر رہا ہے۔ گولے برسائے جا رہے ہیں۔ ایران آج ہمارے ساتھ نہیں ہے۔ ایرانی صدر سال میں دو مرتبہ بھارت کا دورہ کرتے ہیں اور ایران میں بھارت کو برادر ملک قرار دیا ہے۔ ہماری معیشت مشکل میں ہے۔ ہمارے ساتھ ایک چین کھڑا ہے۔ وہ میں سی پیک دے رہا ہے اور بعض قوتیں رکاوٹیں ڈال رہی ہیں اور ملک میں سیاسی اضطراف پیدا کرنے کی سازشیں کی جا رہی ہیں۔

عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی امیر اور وفاق المدارس کے صدر مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر نے کہا ہے کہ اسلام اللہ کی عطا کردہ سب سے بڑی نعمت ہے۔ ہر مسلمان کو اس کی نعمت کی قدر اور اپنے مالک کا ہمیشہ شکر ادا کرنا چاہئے۔ آج دنیا بھر میں ایسے لوگ بھی ہیں ، جو خود بت بناتے ہیں اور خود ہی ان کی پوجا کرتے ہیں۔ دین پر قائم رہنا ہی دنیا اور آخرت کی کامیابی ہے۔

بدقسمتی سے آج وہ بہت سارے نیم ملا ، جو کسی مستند ادارے یا استاد سے پڑھے ہوئے نہیں ہیں اور اپنے مطالعہ کی بنیاد پر امت کے رہنما بننا چاہتے ہیں ، ان سے بچیں۔ یہ دنیا اور آخرت دونوں کے لیے نقصان کا باعث ہیں اور بہت خطرناک ہیں۔ علم حاصل کرو۔ مستند علمائ اور اداروں سے۔ انہوں نے جس طرح ڈاکٹری کی کتابوں کے مطالعہ سے کوئی ڈاکٹر نہیں بن سکتا ہے ، اسی طرح کوئی شخص صرف مطالعہ سے عالم نہیں بن سکتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ جمعیت علمائے اسلام کے لوگوں نے آج یہ اجتماع منعقد کرکے ایک اہم قدم اٹھایا ہے۔ علمائ اتحاد ، یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔ جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی سیکرٹری جنرل اور سینیٹ کے سابق سابق ڈپٹی چیئرمین مولانا عبدالغفور حیدری نے کہاکہ 70 سال سے قرضے لے کر اور اثاثے بیچ کر بجٹ بنایا جا رہا ہے۔ حکمران خود اعتراف ک ررہے ہیں کہ ایک کروڑ سے زائد بچے اسکول نہیں جاتے۔

کہاں ہیں وہ منصوبے ساز ، جنہوں نے بچوں کو تعلیم کے زیور سے روک کے رکھا ہے۔ آج صحت کی مراکز تباہی کا شکار ہیں۔ سڑکیں خراب ہیں۔ صاف پانی شہریوں کو دستیاب نہیں۔ پیپلز پارٹی اب جواب دے کہ اس نے قوم کو کیا دیا۔ انہوں نے کہاکہ سینیٹ انتخابات میں کوئی عالم یا مذہبی شخص نہیں بکا۔ اگر بکا ہے تو وہ خان بکا ہے۔ وڈیرے بک گئے ہیں اور کوئی کہتا ہے کہ میرے 20 ارکان اسمبلی بک گئے۔

کوئی 10 کہتا ہے اور ایک صاحب نے تو سینیٹ چیئرمین کے الیکشن میں پوری پارٹی کو بیچ دیا اور اب ایسے بکنے والے لوگوں کو مسلط کیا جا رہا ہے اور یہ لوگ پاکستان کے اسلامی کلچر کو تباہ کر نا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ ملک کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہمارے حکمرانوں نے پاکستان کے بنیادی اثاثی نعرے پس پشت ڈالا۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا مگر اس میں اسلام عملا نافذ نہیں کیا گیا۔

آج عدل و انصاف کا جنازہ اٹھ چکا ہے۔ 70 سال گزرجانے کے بعد بھی یہ پوچھا جا رہا ہے کہ نظام عدل کون سا ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری جب بحال ہوئے تھے تو اس وقت میں نے ان سے کہا تھا کہ آپ بحالی کے بع مستعفی ہو جائیں کیونکہ وقت کا قاضی اگر فریق جائے تو پھر انصاف نہیں ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کے عوام ظالموں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور انشائ اللہ آئندہ سندھ کا وزیر اعلی جمعیت علمائے اسلام کا ہو گا۔

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی مذمت کرتے ہیں۔ دنیا 70 سال سے کشمیریوں کے قتل عام پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ ہم ایک مرتبہ پھر اقوام عالم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ کشمیریوں پر ہونے والے مظالم بند کروائیں۔ انہوں نے پاکستان مخالف قوتوں کو انتباہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے۔ اس کے خلاف اگر کوئی سازش کی اور عقل سے کام نہیں لیا تو پھر یہ جنگ پاکستان کی سرزمین پر نہیں بلکہ بھارت کی سرزمین پر ہو گی۔

دینی مدارس اور مذہبی طبقہ صف اول میں ہو گا۔ جمعیت علمائے پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل اور متحدہ مجلس عمل کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات صاحب زادہ شاہ اویس نورانی صدیقی نے کہاکہ شہر کراچی ہمیشہ علمائ اور مذہبی طبقے کا رہا ہے لیکن بدقسمتی سے بعض قوتوں نے 26 سال پہلے اس شہر میں علمائ کے مینڈیٹ پر ڈاکا ڈالا اور ایک لسانی گروپ کے حوالے کر دیا اور اس گروپ نے اس شہر کو تباہ کر دیا۔

اس شہر کی روشنیاں چھین لیں۔ اس شہر کو مقتل بنایا۔ انہوں نے کہاکہ آج ملک میں کوئی قوم کی بیٹیوں کو نچوا کر انقلاب لانے کی بات کرتے ہیں تو دوسرا کفن لہرا کر انقلاب کی بات کر رہا تھا۔ یہ سب قوم کو انتشار میں مبتلا کرنے اور ملک کو نقصان پہنچانے کی سازش ہے۔ ان لوگوں نے گذشتہ پانچ سالوں کے دوران ملک کی معیشت کو تباہ کر دیا۔ قوم کو سوائے بدتہذیبی ، انتشار ، گالم گلوچ کی سیاست کے سوا کچھ نہیں دیا۔

انہوں نے کہا کہ ایک آمر نے اس ملک کے نظام اور نظریات کو بدترین نقصان پہنچایا ، جو مذہبی لوگ مذہبی نعروں کی بنیاد پر ایک خاص ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں ، میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ مشرف نے جب اسلامی نظریہ پر حملہ کیا تو یہ لوگ اس وقت خاموش کیوں تھے۔ انہوں نے کہاکہ مولانا شاہ احمد نورانی ، مفتی محمود اور دیگر علمائ کے ورثائ عوام کی حقیقی رہنمائی کرین گے۔

انہوں نے کہاکہ 2002 ئ میں فوجی آمر دھاندلی نہ کراتا تو مولانا فضل الرحمن اس ملک کے وزیر اعظم ہوتے۔ شاہ اویس نورانی چیف جسٹس آف پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر سانحہ بلدیہ ٹاؤن ، سانحہ وکلائ ،سانحہ نشترپارک، سانحہ 12 مئی کا فوری طور پر نوٹس لیں اور ملزمان کو کیفرکردار تک پہنچائیں۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ 2018 ئ کے انتخابات میں کتاب کو ووٹ دیں اور ایم ایم اے کی حکومت بنی تو بے نظیر بھٹو سمیت تمام مقتولین کے قاتلوں کو گرفتار کیا جائے گا۔

انہوں نے کہاکہ مولانا مفتی محمود اور مولانا شاہ احمد نورانی کے حقیقی اور روحانی فرزندوں نے کبھی بھی اپنی دستار نہیں بیچی اور نہ ہی آئندہ کبھی اس دستار کی عظمت کو نقصان پہنچانے کی اجازت دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ایک خاص طبقہ مذہبی طبقوں کے خلاف پروپیگنڈا کر رہا ہے۔ ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔ سابق وزیر اعلی خیبر پختونخوا اور وفاقی وزیر اکرم خان درانی نے کہا کہ موجودہ حالات میں متحدہ مجلس عمل کا اتحاد قوم کی فلاح و بہبود کے لیے ایک عظیم اتحاد ہے۔

یہ اتحاد شام ، کشمیر ، لیبیا اور دیگر مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف جدوجہد کرے گا۔ سعودی عرب پر منڈ لائے جانے والے خطرات کا ہم سب نے مطالبہ کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں پختونوں کو کئی مسائل کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہاکہ سینیٹ انتخابات میں مینڈیٹ چوری کیا گیا اور وہ دو جماعتیں جو کل تک ایک دوسرے کو گالیاں دیتی تھیں۔ ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے ،و ہ کسی کا مینڈیٹ چوری کرنے کے لیے متحد ہوئے اور خرید و فروخت کا ایسا بازار گرم کیا کہ اللہ کی پناہ۔

کیا ایسے لوگ نئے چیف جسٹس سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ قوم کو بتائیں کہ کیا ایسے لوگ آئین کے 62 اور 63 پر پورا اترتے ہیں۔ ایک شخص کسی کے گھر جاتا ہے اور گھر والوں کی ماؤں بہنوں ، بیٹیوں پر بری نظر ڈال کر اجاڑ دیتا ہے۔ کیا ایسا شخص وزیر اعظم بننے کا اہل ہے۔ ہمارا معاشرہ اس کی اجازت نہیں دیتا۔ انہوں نے کہا کہ آج خیبر پختونخوا میں تبدیلی کی بات کی جا رہی ہے ، جو سب غلط اور بے بنیاد ہے۔

میں میڈیا والوں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ وہاں آئیں اور خود دیکھیں کہ کیا تبدیلی ہوئی ہے۔ تبدیلی کے نام پر سب کچھ تباہ کر دیا ہے۔ ہر طرف تباہی ہے۔ اب انتخابات قریب ہیں تو ترقیاتی کاموں کے نام پر قبریں کھودی جا رہی ہیں۔ یہی حال سندھ کا بھی ہے۔ سندھ کے عوام نے ہمیشہ پیپلز پارٹی کا ساتھ دیا لیکن پیپلز پارٹی کی نے بھی ان کے ساتھ وفا کی۔

پیپلز پارٹی تین بار وفاقی حکومت میں آئی اور پانچ بار صوبائی حکومت میں رہی لیکن آج لاڑکانہ کی حالت پر رونا آتا ہے۔ انہوں نے پشتو زبان میں پختونوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ خیر اور شر کی اس جنگ میں علمائ کے ساتھ کھڑے ہو جائیں اور اپنا کردار ادا کریں۔ آپ کا کردار ماضی میں بھی قابل تحسین رہا ہے۔ ماضی میں بھی علمائ کو مایوس نہیں کیا۔

مجھے امید ہے کہ آئندہ بھی آپ مایوس نہیں کریں گے۔ اس موقع پر شرکائ نے کھڑے ہو کر اظہار تشکر کیا۔ جماعت اسلامی مرکزی نائب امیر اسد اللہ بھٹونے کہا کہ آنے والے والا دور متحدہ مجلس عمل کا ہے، پاکستان اور دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کے لئے ایم ایم اے امید کی کرن ہے۔ عوام مجلس عمل کے ساتھ کھڑے ہوں۔ وہی ان کے مسائل حل کر سکتی ہے۔ اہل کراچی پھر یہ نہ کہنا کے متبادل کوئی نہیں تھا۔

جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات حافظ حسین احمد نے کہاکہ کراچی میں ماضی میں ایک سمندر ہوا کرتا تھا آج دو سمندر ہیں ایک پانی کا سمندر ہے اور ایک عوام کا، جمعیت علمائے اسلام کسی تعارف کا محتاج نہیں، آئین پاکستان کی تشکیل میں مدرسے کے چٹائی پر بیٹھنے والے مولانا مفتی محمود نے علما کرام کو حجروں سے نکال کر اسمبلیوں میں پہنچایا، میڈیا ٹاک شوز میں پھر تبصرے ہورہے ہیں کہ ایم ایم اے دوبارہ بن گئی گویا پیٹ میں مروڑ شروع ہوچکی ہے، جب نوجوان ستارے تھے تو قیادت مفتی محمود کے پاس تھی آج پنجتن ہے تو قیادت مولانا فضل الرحمن کے پاس ہے، ووٹ کا تقدس مولانا مفتی محمود نے رکھا، آج تو کوئی ووٹ کوئی نوٹ کی تقدس کی بات کر رہا ہے، مولانا ڈاکٹر خالد محمود سومرو کے قاتلوں اور سہولت کاروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے، کیا پتہ را انوار کا سرپرست اور محترمہ اور خالد محمود سومرو کے قاتلوں کا سہولت کار ایک ہی ہو۔

جمعیت علمائے اسلام آزاد کشمیر کے امیر مولانا سعید یوسف نے کہا کہ آج کشمیر میں مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا ہے۔ ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔ شام میں مسلمانوں کا قتل عام کی بھی مذمت کرتے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ مسلمانوں کے اس قتل عام پر امت مسلمہ کے حکمران اپنے اپنے مفادات کے لیے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ متحدہ مجلس عمل فلاح و بہبود ، اسلامی فلاحی ریاست کے قیام اور نظام خلافت راشدہ کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔

ایم ایم اے پاکستانیوں کے لیے امید کی کرن ہے۔ علامہ راشد محمود سومرو نے کہا کہ آج کے اس اجتماع کو انتخابی مہم کا آغاز سمجھا جائے۔ سندھ کے دارالحکومت کراچی کے عوام نے علمائ کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے۔ آج سندھ کھنڈر بنا ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی نے سندھ کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ آج عوام نے جس محبت کا اظہار کیا ہے ، اس سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ اب پیپلز پارٹی اور سندھ کے غاصبوں کا مقدر شکست ہے۔

انہوں نے کہا کہ بعض قوتیں کراچی کو سندھ سے الگ کرنے کی سازش کر رہی ہیں۔ ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔ جو لوگ سندھ کو توڑنا چاہتے تھے ، وہ آج خود ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ سندھ میں مدارس کے خلاف سازشیں کی جا رہی ہیں۔ مساجد اور مدارس کی تعمیر پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل مولانا محمد امجد خان نے کہاکہ سندھ کے عوام نے آج علمائ کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے اور 2018 ئ میں ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے آنے والے امیدوار بھاری اکثریت سے کامیاب ہوں گے۔

آج مذہبی جماعتیں ایم ایم اے کے پلیٹ فارم پر جمع ہیں۔ امت مسلمہ اور پاکستانی قوم بیرونی عناصر سے خوف زدہ نہ ہوں بلکہ اپنی صفوں میں اتحاد رکھیں۔ قرار داد مقاصد ہوں یا ملک کو متفقہ آئین کا مرحلہ ہو اس میں علمائے کرام نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ ناموس رسالت کے قانون کا تحفظ ماضی میں بھی کیا ہے اور آج بھی کر رہے ہیں۔ ایم ایم اے بن چکی ان شااللہ قرآن و سنت کا نظام لا کر دم لیں گے۔

کچھ نے کہا تھا کہ ہم نیا پاکستان بنائیں گے وہ نیا پشاور نہیں بنا سکے نیا پاکستان کیا بنائیں گی ہم ملک کسی کو ٹیکے پر نہیں دینے دیں گے۔ بیرونی لابی کیلئے سیاست کو نہیں چلنے دیں گے۔مولانا امیر زمان نے کہا ہے کہ جب بھی ملک پر برا وقت آئے گا تو علمائ اور طلبہ ملک کی سلامتی ، بقائ ، اس کی جغرافیائی اور اس کی سرحدوں کے تحفظ کے لیے سب سے آگے ہوں گے۔

ہم الیکشن میں تاخیری حربے کسی صورت براشت نہیں کریں گے۔ اگر ایسی کوئی سازش ہوئی تو عوام اس کو ناکام بنائیں گے۔ جماعت اسلامی کے مرکزی نائب امیر اسدللہ بھٹو نے کہا ہے کہ آنے والا وقت متحدہ مجلس عمل کا ہے۔ پاکستان اور دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کے لیے مجلس عمل ایک امید کی کرن ہے۔جمعیت علمائے اسلام سندھ کے سرپرست مولانا عبدالکریم عابد نے کہا کہ سندھ کے عوام نے ظلم اور جبر کے مقابلے میں آج علمائ اور مذہبی طبقے کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے۔

اگلا وقت مذہبی قوتوں کا ہے اور بہت سارے لوگوں کو ایم ایم اے کی بحالی سے پریشانی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام سندھ کے نائب امیر قاری محمد عثمان نے کہا کہ کراچی منی پاکستان ہے لیکن یہ کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے، شہری کچرے کے ڈھیر میں زندگی بسر کر رہے ہیں، شہریوں کے بنیادی حقوق سلب ہوچکے ہیں، جبکہ حکمران عیاشیوں میں مصروف ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات محمد اسلم غوری نے کہاکہ اس شہر کے باسیوں نے اپنا گھر بار چھوڑ کر ہجرت کی لیکن آج ان کے گھروں میں نعشیں بھیجی جارہی ہے، شہر کھنڈر نہیں بلکہ قبرستان بن چکا ہے، اس شہر کے باسیوں کو دعوت دیتا ہوں کہ 2018 کے انتخابات میں علمائے کرام کو ووٹ دیں، اس شہر کے مسائل علما ہی حل کرسکتے ہیں۔

جمعیت علمائے اسلام خیبرپختونخوا کے رہنما مولانا عبد الجلیل جان نے کہا کہ آج کے اجتماع نے ثابت کر دیا کہ کراچی اور سندھ جے یو آئی کا تھا ہے اور رہے گا، خیبر پختون خواہ میں ہمارے ماں بہنوں سے حیا کا چادر چھینا گیا ہے آنے والے الیکشن میں یہ حیا کا چادر اپنی ماں بہنوں کو واپس لوٹا دیں گے۔ مولانا عبدالکریم عابد نے کہا کہ کراچی سمیت سندھ میں تعصبات کو فروغ دیا جا رہا ہے، اگر پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بنانا ہے تو جس نعرے پر اس ملک کو حاصل کیا گیا تھا اس نعرے کے مطابق اس ملک کو بنانا ہوگا۔

بلوچستان سے جمعیت علمائے اسلام کے رکن قومی اسمبلی محمد عثمان بادینی نے کہاکہ آج کراچی والوں کو بھی پتہ چل گیا ہوگا کہ خواتین کو نچوائے بغیر بھی جلسے کامیاب ہوسکے ہیں، کراچی سے غنڈہ گردی اور ٹھپہ مافیا کا صفایا ہوچکا، آج اس بات کا واضح اعلان کرتے ہیں کہ اب اس شہر میں ظلم کو برداشت نہیں کیا جائے گا، اس سرزمین کا سودا کرنے والوں کو ایک بار پھر مسلط کرنے کی کوشش کو ناکام بنایا جائے گا، بیحیائی کی سیاست کرنے والوں ناکام بنانے کے لئے عوام سے تعلق جوڑیں۔

جے یو آئی لاڑکانہ کے امیرناصر محمود سومرونظریہ پاکستان اور پاکستان لازم و ملزوم ہے، آج کراچی کے اس اجتماع سے سندھ میں تقریبات کا آغاز ہورہا ہے، سندھ کو باب الاسلام بنے گا، زرداری، خانوں نوابوں کا دور ختم اب دور جے یو آئی کا آنے والا ہے، چیف جسٹس ست اپیل کرتا ہوں اور پوچھتا ہوں کہ میرے شہید والد خالد محمود سومرو کے خون کا انصاف کب ہوگا، تین سال سے قتل گرفتار ہیں لیکن انصاف نہیں ہورہا۔

جمعیت علمائے اسلام کے رہنما تاج محمد ناہیوںنے کہا کہ اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام نافذ کر کے رہیں گے، جے یو آئی کی طاقت کا ہی نتیجہ ہے کہ اس ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، قرآن و سنت کے خلاف اگر قانون سازی نہیں ہورہی تو اس کی واحد وجہ جے یو آئی کا پارلیمانی کردار ہے۔ مولانا فیصل ندیم شاہ نے عوام سے مطالبہ کیا کہ 2018 کے الیکشن بلا اور تیر نہیں کتاب پر مہر لگے گی۔ #