خطے میں دیرپا امن کیلئے پاکستان اور افغانستان میں اعتماد کی بحالی ضروری ہے، آفتاب شیر پائو

پہلے فوج اور سویلین کی افغان پالیسی میں فرق تھا مگر اب دونوں کی پالیسییکساں ہیں،طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے پاکستان کوکردار ادا کرنا چاہیے،افغان مارکیٹ کاہاتھ سے نکلنا پاکستان کے مفاد میں نہیں، بارڈر کی بندش سے افغانوں کا کم پاکستانی تاجروں کا زیادہ نقصان ہوتاہے،نیشنل پریس کلب میںپریس کانفرنس سے خطاب

جمعرات 22 مارچ 2018 20:20

خطے میں دیرپا امن کیلئے پاکستان اور افغانستان میں اعتماد کی بحالی ضروری ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 مارچ2018ء) قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد شیرپائو کا کہنا ہے کہ خطے میں قیام امن کیلئے پاکستان اور افغانستان کے درمیان اعتماد کی بحالی ضروری ہے، آرمی چیف کا دورہ افغانستان اور افغان صدر اشرفی غنی کا پاکستان سے متعلق بیان مثبت پیش رفت ہیں،افغان طالبان کو مذاکرات کی پیش کش اشرف غنی کی پالیسی میں تبدیلی کی عکاس ہے،پہلے افغان صدر اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دونوں سختی سے طالبان سے نمٹنے کی بات کرتے تھے۔

جمعرات کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ مذاکراتی عمل کے بعد سے امریکہ کا پاکستان پر دبائو کم ہوا ہے، یہ پاکستانی سفارتی کامیابی ہے،اب امریکہ نے پاکستان کے اندر کارروائی کی موقف کو بھی ترک کردیا ہے،پہلے فوج اور سویلین کی افغان پالیسی میں فرق تھا مگر اب دونوں کی پالیسی ایک ہے،طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے کردار ادا کرنا چاہیے،طالبان پہلے عسکری و حکومتی اداروں و اہلکاروں کو نشانہ بناتے تھے لیکن اب ان کی پالیسی میں بھی تبدیلی آئی ہے وہ سویلین کو بھی نشانہ بنا رہی ہے، کابل میں حالیہ دہشتگردی کا واقعہ اسی کی کڑی ہے، جو کہ قابل مزمت ہے،مگر اس طرح کے واقعات کے باوجود مذاکراتی عمل متاثر نہیں ہونا چاہیے، مذاکرات کے ذریعے افغان مسئلہ کا حل قومی وطن پارٹی کا شروع دن سے ہی موقف رہا ہے،افغانستان میں حالات کی خرابی سے پاکستان بھی براہ راست متاثر ہوگا، دونوں ممالک کو مل بیٹھ کر قیام امن کیلئے کوششیں کرنی چاہییں،خطے میں امن کا راستہ افغانستان سے ہو کر گزرتا ہے،اسلام آباد کو افغان پالیسی مرتب کرتے وقت کوئٹہ اور پشاور سے کی بھی رائے کو شامل کرنا چاہیے،پاکستان نے افغان مہاجروں کی وسیع قلبی کے ساتھ خدمت کی ہے،جہاجرین کی واپسی کیلے دو سال تک کا وقت دینا دانشمندانہ فیصلہ ہے، اس سے مہاجرین کو پلاننگ کے تحت اپنے اپنے علاقوں میں منتقل ہونے میں کافی وقت ملے گا،پاکستان کو مہاجرین کیلئے دی جانی والی خدمات کو آسانی سے ضائع نہیںکرنا چاہیے، اُن کی باعزت واپسی کیلئے انتظامات کرنا چاہیے تاکہ یہ افغانستان میں پاکستان کے سفیر بن سکیں، جس سے پاکستان کا مثبت پہلو دنیا بالخصوص افغانستان تک اجاگر ہوگا،مہاجرین میںسے اگر کچھ عناصر دہشتگردی میں ملوث ہوں تو ان کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے تاہم اس کی سزا پورے مہاجرین کو دینی چاہیے، ہم اقوام متحدہ کے قوانین کے پابند ہیں جس کے تحت مہاجروں کو ان کا جائز حق دینا پاکستان پر فرض ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ افغان مارکیٹ کاہاتھ سے نکلنا پاکستان کے مفاد میں نہیں،افغانستان کے ساتھ تجارت میں پاکستانی تاجروں کو زیادہ فائدہ ہے، بارڈر کی بندش سے افغانوں کا کم پاکستانیوں کا زیادہ نقصان ہوتا ہے۔ جمعرات کو اسلام آبادمیں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کی برآمدات اور درآمدات میں کافی فرق ہے،برآمدت کی صورتحال پہلے ہی مخدوش ہے ،افغان مارکیٹ کے کھونے سے پاکستانی معیشت پرمزید بوجھ بڑھے گا، انہوں نے وزیراعظم شاہدخاقان عباسی کے اگلے ہفتہ دورہ افغانستان کے حوالے سے کہا کہ وزیراعظم کو دورہ افغانستان سے قبل تمام سیاسی و عسکری رہنمائوں کو اعتماد میں لینا چاہیے اور افغانستان کے تحفظات کو بھی کھلے دل کے ساتھ سننا چاہیے، ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ افغان صدر کا پاکستان سے متعلق حالیہ بیان افغانستان میں قیام امن کی جانب پہلاقدم ہے،دونوں ممالک کی ثقافت یکساں ہیں اس لیے دونوں ممالک کے درمیاں دوریاں بھی ختم ہونی چاہیے،عسکری و حکومتی وفود کے تبادلے کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کے عوام کے مابین تعلق بھی ضروری ہے، پاکستان کی پارلیمانی وفد نے پچھلے سال افغانستان کا دورہ کیا ،جس کے بعد افغان پارلیمانی وفد نے پاکستان آنا تھا مگر حالات میں تنائو کے باعث نہ آسکا ،یہ سلسلہ اب دوبارہ شروع ہونا چاہیے، تاکہ دونوں ممالک کے مابین اعتماد سازی کو فروغ حاصل ہو سکے۔