پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس

سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں صدارتی ریفرنس کی پیروی کے لئے وکلاء کو خلاف قواعد بھاری معاوضے ادا کئے گئے، صدارتی ریفرنس کے دوران ملک قیوم نے بطور وکیل 40 لاکھ روپے فیس وصول کی، بعد میں وہ اٹارنی جنرل بن گئے، اس طرح بحیثیت اٹارنی جنرل اپنی ہی فیس میں انہوں نے 20 لاکھ روپے کا غیر قانونی اضافہ کرلیا، آڈٹ حکام

جمعرات 22 مارچ 2018 13:49

پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 22 مارچ2018ء) پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی میں آڈٹ حکام نے رپورٹ پیش کی ہے کہ 2007ء میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں صدارتی ریفرنس کی پیروی کے لئے وکلاء کو خلاف قواعد بھاری معاوضے ادا کئے گئے۔ کمیٹی نے اس معاملہ پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ،عاملہ موثر بہ ماضی منظوری کے لئے وزیراعظم کو بھجوانے کا حکم دیا ہے اور وزارت قانون کو یہ ہدایت کی ہے کہ آئندہ سرکاری رقوم کا اس طرح بے دریغ استعمال روکنے کے لئے موثر حکمت عملی بنائی جائے۔

اجلاس جمعرات کو کمیٹی کے کنوینر سردار عاشق حسین گوپانگ کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا جس میں کمیٹی کے ارکان ڈاکٹر عذرا فضل، شاہدہ اختر علی، شیخ روحیل اصغر اور رشید گوڈیل سمیت متعلقہ سرکاری اداروں کے اعلیٰ افسران نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

اجلاس میں وزارت قانون و انصاف کے 2008-09ء اور 2009-10ء کے زیر التواء آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔ ایک آڈٹ اعتراض کے جائزہ کے دوران آڈٹ حکام نے پی اے سی کو بتایا کہ 2007ء میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف سابق صدر پرویز مشرف کی طرف سے سپریم جوڈیشل کونسل میں دائرصدارتی ریفرنس کی پیروی کے لئے دو وکلاء وسیم سجاد اور ڈاکٹر خالد رانجھا کی خدمات حاصل کی گئیں۔

ان وکلاء کو 60 لاکھ روپے کی خلاف ضابطہ ادائیگی کی گئی حالانکہ اس وقت کے وزیراعظم نے وزارت قانون و انصاف کو صرف 20 لاکھ روپے کی ادائیگی کی اجازت دی تھی۔ کمیٹی نے اس معاملہ پر آڈٹ، وزارت قانون اور ارکان کی رائے لینے کے بعد فیصلہ کیا کہ اس معاملے کو موثر بہ ماضی منظوری کے لئے ایک مرتبہ پھر وزیراعظم کو بھجوایا جائے اور وزارت قانون کو ہدایت کی کہ آئندہ اس طرح کی خلاف قواعد ادائیگیاں نہ کی جائیں۔

آڈٹ حکام نے پی اے سی کو بتایا کہ 2007ء میں ہی صدارتی ریفرنس کے دوران ملک قیوم نے بطور وکیل 40 لاکھ روپے فیس وصول کی، بعد میں وہ اٹارنی جنرل بن گئے، اس طرح بحیثیت اٹارنی جنرل اپنی ہی فیس میں انہوں نے 20 لاکھ روپے کا غیر قانونی اضافہ کرلیا جس کے وہ قانونی طور پر مجاز نہیں تھے۔ پی اے سی ذیلی کمیٹی کے ارکان نے تجویز دی کہ اس کیس کو بھی وزیراعظم سے موثر بہ ماضی منظوری کے لئے ارسال کر دیا جائے جس پر یہ معاملہ منظوری کے لئے وزیراعظم کو ارسال کر دیا گیا۔

بعض ارکان نے اس رقم کی ریکوری کی تجویز دی جس پر سیکریٹری قانون و انصاف کرامت حسین نیازی نے کہا کہ ایک دفعہ وکیل وصول کرلے تو پھر اس کو کبھی واپس نہیں کرتا۔ ایک اور آڈٹ اعتراض کے جائزہ کے دوران شیخ روحیل اصغر کے استفسار پر سیکریٹری قانون نے کمیٹی کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے جج کی تنخواہ 15 لاکھ ماہانہ جبکہ ہائی کورٹ کے جج کی تنخواہ 10 لاکھ روپے ماہانہ ہے۔

ایک اور سوال کے جواب میں سیکریٹری قانون نے کہا کہ ججوں کی تنخواہوں کا فیصلہ وزیراعظم کی ایڈوائس پر صدر مملکت کرتے ہیں۔ پی اے سی ذیلی کمیٹی کو بتایا گیا کہ سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم نے اپنی معاونت کے لئے پانچ وکلاء کی خدمات پانچ لاکھ روپے ماہوار فی وکیل حاصل کیں۔ ان وکلاء کی نامزدگی کی منظوری سابق صدر پرویز مشرف نے دی۔ آڈٹ حکام نے سفارش کی کہ سرکاری رقم کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔

اس کے ذمہ داروں کا تعین کیا جائے۔ سیکریٹری قانون نے بتایا کہ ہم نے ماضی میں ہونے والے اس طرح کے اقدامات کا سلسلہ اب بند کر دیا ہے۔ اب جہاں سے بھی درخواست آتی ہے ہم معاملہ اٹارنی جنرل کو بھجوا دیتے ہیں۔ وزارت قانون نے وزیراعظم کی منظوری سے وزیر قانون، سیکریٹری قانون اور اٹارنی جنرل پر مشتمل لیگل ایڈوائزری کمیٹی قائم کی ہے جو وکلاء کی فیس کا فیصلہ کرتی ہے۔ کمیٹی نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ وکلاء کو ادائیگیاں غیر قانونی طور پر کی گئیں اور ہدایت کی کہ اس معاملے کی بھی وزیراعظم سے موثر بہ ماضی تاریخ میں منظوری حاصل کی جائے اور آئندہ سرکاری رقوم کے اس طرح بے دریغ استعمال کی روش سے اجتناب کیا جائے۔