ایگزیکٹ جعلی ڈگری کیس : شعیب شیخ و دیگر ملزمان کی بریت کیخلاف اپیل کی سماعت

ٹرائل کورٹ نے بریت کے فیصلے میں قانون شہادت کے اصولوں سے انحراف کیا ہے ٹرائل کورٹ کہتی ہے جرم ثابت نہیں ہوا تاہم فیصلے میں اس کی تفصیلات نہیں بتائی، وکیل ایف آئی اے کیا جن لوگوں کے ساتھ مبینہ فراڈ ہوا ان کے بیان لئے گئے یا کوئی ایسا شکایت کنندہ ہے جسے ایف آئی اے نے گواہ بنایا ہو، جسٹس اطہر من اللہ

بدھ 21 مارچ 2018 22:53

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 21 مارچ2018ء) اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایگزیکٹ جعلی ڈگری کیس کے مرکزی ملزم شعیب شیخ و دیگر ملزمان کی بریت کے خلاف اپیل کی سماعت ہوئی ایف آئی اے کی جانب سے حامد علی شاہ ایڈوووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے اور دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ ٹرائل کورٹ نے بریت کے فیصلے میں قانون شہادت کے اصولوں سے انحراف کیا ہے ٹرائل کورٹ کہتی ہے جرم ثابت نہیں ہوا تاہم فیصلے میں اس کی تفصیلات نہیں بتائی ، عدالتی فیصلے میں صرف استغاثہ کی شہادتوں اور چند دستاویزات کا ذکر ہے ، کہیں قانونی شقوں کا ذکر نہیں ہے۔

ٹرائل کورٹ کے جج کی جانب سے مذکورہ مقدمے میں پچاس لاکھ روپے رشوت لینے کے اعتراف کے بعد کیس کا دوبارہ جائزہ لینا چاہئے۔

(جاری ہے)

جعلی ڈگری کیس میں ایگزیکٹ کے چیف ایگزیکٹو شعیب شیخ اور دیگر ملزمان کی بریت کے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف ایف آئی اے کی اپیل کی سماعت گزشتہ روز عدالت عالیہ کے جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل ڈویڑن بنچ نے کی۔

اس موقع پر ملزمان کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما اور سابق وزیر قانون ڈاکٹر بابر اعوان اور ان کی معاونت کیلئے راجہ رضوان عباسی ایڈووکیٹ پیش ہوئے جبکہ ایف آئی اے کی جانب سے حامد علی شاہ ایڈووکیٹ اور ڈپٹی اٹارنی جنرل راجہ خالد محمود پیش ہوئے۔ دوران سماعت ایگزیکٹ کی جانب سے راجہ رضوان عباسی نے کہا کہ ہم نے ایف آئی اے کی جانب سے پرائیویٹ وکیل کی خدمات لینے کے خلاف درخواست دائر کی ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ وقت آنے پر ہم آپ کی درخواست کا جائزہ لیں گے۔ ایف آئی اے کے وکیل حامد علی شاہ نے دلائل پیش کرتے ہوئے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے بریت کے فیصلے میں قانون شہادت کے اصولوں سے انحراف کیا ، ٹرائل کورٹ کہتی ہے جرم ثابت نہیں ہوا تاہم فیصلے میں اس کی تفصیلات نہیں بتائی ، عدالتی فیصلے میں صرف استغاثہ کی شہادتوں اور چند دستاویزات کا ذکر ہے ، کہیں قانونی شقوں کا ذکر نہیں ہے۔

ٹرائل کورٹ کے جج کی جانب سے مذکورہ مقدمے میں پچاس لاکھ روپے رشوت لینے کے اعتراف کے بعد کیس کا دوبارہ جائزہ لینا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ ایگزیکٹ جعلی ڈگریوں کا کاروبار کرتی ہے۔ ٹرائل کورٹ کے جج کی جانب سے رشوت لینے کا اعتراف کیا گیا ہے اور اس اعتراف کی روشنی میں کیس کا دوبارہ جائزہ لینا چاہئے۔ اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا جن لوگوں کے ساتھ مبینہ فراڈ ہوا ان کے بیان لئے گئے یا کوئی ایسا شکایت کنندہ ہے جسے ایف آئی اے نے گواہ بنایا ہو ایگزیکٹ کا موقف ہے کہ انہوں نے کسی کو دھوکہ نہیں دیا۔

دنیا بھر میں ڈگری لینے والے کتنے گواہ ایگزیکٹ کے خلاف پیش ہوئے۔ ایف آئی اے کے وکیل نے کہا کہ دو گواہ پیش ہوئے تھے۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ایگزیکٹ کے ایک سابق ملازم عمیر حامد کو امریکہ میں سزا بھی سنائی گئی ہے۔ اس پر ایگزیکٹ کے وکیل راجہ رضوان عباسی نے اعتراض اٹھایا کہ فاضل وکیل وہ بات کر رہے ہیں جو ریکارڈ کا حصہ نہیں۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل راجہ خالد محمود نے کہا کہ یہ بھی ایگزیکٹ کے خلاف دستاویزی شہادت ہے۔

اس پر بابر اعوان نے کہا کہ ایوب آفریدی کو امریکہ میں سزا ہوئی مگر وہ پاکستان میں بری ہوا۔ بعد ازاں ایف آئی اے کے وکیل کے دلائل جاری تھے کہ عدالت نے مزید سماعت 26 مارچ تک ملتوی کر دی۔واضح رہے کہ ایف آئی اے نے قومی و بین الاقوامی میڈیا میں ایگزیکٹ جعلی ڈگری اسکینڈل منظر عام پر آنے کے بعد جون 2015ئ میں کمپنی کے مالک شعیب شیخ اور ان کی اہلیہ سمیت دیگر ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کیا۔

ان پر الزام تھا کہ وہ اندرون و بیرون ملک آن لائن جعلی ڈگریاں دے کر سادہ لوح افراد کو لوٹ رہے ہیں۔ بعد ازاں اسلام آباد کے سابق ایڈیشنل سیشن جج پرویز القادر میمن نے تمام ملزمان کو بری کر دیا۔ بعد ازاں مذکورہ جج نے پچاس لاکھ روپے رشوت لے کر ایگزیکٹ کمپنی کے ملزمان کو بری کرنے کا اعتراف کیا جس پر انہیں ملازمت سے برخاست کیا جا چکا ہے۔۔۔۔۔۔

متعلقہ عنوان :