نقیب اللہ محسود قتل کیس میں نامزد مرکزی ملزم رائوانوار سپریم کورٹ میں پیش

عدالت نے ان کی حفاظتی ضمانت کی استدعا مسترد کردی،احاطہ عدالت سے گرفتار نقیب اللہ قتل کیس کی تحقیقات کیلئے آفتاب پٹھان کی سربراہی میں نئی پانچ رکنی جے آئی ٹی تشکیل

بدھ 21 مارچ 2018 22:38

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 21 مارچ2018ء) کراچی میں نقیب اللہ محسود قتل کیس میں نامزد مرکزی ملزم سابق ایس ایس پی ملیر رائوانوار سپریم کورٹ میں پیش ہوگئے، عدالت نے ان کی جانب سے حفاظتی ضمانت دینے کی استدعا مسترد کر تے ہوئے گرفتارکرنے کاحکم جاری کردیا جس پران کواحاطہ عدالت سے گرفتار کرلیا گیا،عدالت نے نقیب اللہ قتل کیس کی تحقیقات کیلئے اے آئی جی سندھ آفتاب پٹھان کی سربراہی میں نئی پانچ رکنی جے آئی ٹی تشکیل دینے کا حکم جاری کیا اور واضح کیاکہ کیس کی تحقیقات آزادانہ اورشفاف ہوں گی جس پرکوئی ادارہ یا عدالتی آبزرویشن اثرانداز نہیں ہوں گی ،کیس کافیصلہ ہونے تک رائوانوار کانام ای سی ایل میں شامل اورآئی جی سندھ حفاظت کے ذمہ دار ہوں گے۔

بدھ کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطابندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بنچ نے نقیب اللہ کے قتل سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

(جاری ہے)

ا س موقع پرنقیب اللہ قتل کیس میں نامزد ملزم ایس ایس پی ملیر رائو انوار کوعقبی دروازے سے لاکرعدالت میں پیش کیا گیا،ان کے وکیل شمیم رحمن نے عدالت کے روبرو دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے عدالت کے سامنے سرنڈ کردیا ہے ، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ قانون کے سامنے سرنڈر کرکے ہم پر کوئی احسان نہیں کیا گیا ہے ، چیف جسٹس نے رائوانوار کومخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جس دلیری سے آپ کہیں مقیم تھے وہاں سے آپ نے ہمیںخط بھی لکھے، اس پر ہمیں حیرت ہورہی ہے، اگرآپ بے قصور تھے توعدالت میں خاصر ہوجاتے ، ہمیںبتایا جائے کہ اتنے دن کہاں تھے ، یہاں کیوںپیش نہیںہوئے ، جب ہم نے موقع بھی دیا تو سرنڈر کیوں نہیں کیا، جس پررائوانوار خاموش کھڑے رہے اورعدالت کوکوئی جواب نہیں دیا۔

ان کے وکیل نے عدالت سے کہا کہ میرے موکل حفاظتی ضمانت چاہتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت آپ کو حفاظتی ضمانت نہیں دے رہی بلکہ گرفتاری کے احکامات جاری کئے جارہے ہیں اس معاملے پرعدالت ایک کمیٹی قائم کررہی ہے ، رائوانوار نے جوکچھ کہنا ہے وہ کمیٹی کوبتائیں۔فاضل وکیل نے کہا کہ ہمیں سندھ پولیس کے افراد پرمبنی کمیٹی سے اختلاف ہے، صوبائی پولیس ان کیخلاف ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ رائوانوار اسی پولیس فورس کاحصہ ہیں پھرکس طرح رائوانوار کی مخالف ہوگئی ہے، فاضل وکیل نے استدعا کی کہ کمیٹی میں آئی ایس آئی اور آئی بی کو بھی شامل کیا جائے، جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ یہ سیدھا سیدھا کیس ہے، ا یجنسیوں کا تفتیش سے کیا تعلق ہے۔ سماعت کے دورا ن عدالت نے فاضل وکیل کی درخواست پر رائوانوار کے خلاف توہینِ عدالت کا نوٹس واپس لیتے ہوئے سابق ایس ایس پی کا شناختی کارڈ اور بینک اکائونٹس بحال کرنے کی ہدایت کی اورکہاکہ ان کو تنخواہیںبھی دی جائیں تاکہ رائوانوارکے بچوں کی روزی روٹی بحال ہو سکے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے اس معا ملے کی تحقیقات کیلئے ایڈیشنل آئی جی سندھ آفتاب احمد پٹھان کی سربراہی میں نئی جے آئی ٹی تشکیل دیدی ہے ، جس کے ارکان میں اے آئی جی اسپیشل برانچ ولی اللہ دل، ڈی آئی جی ساوتھ محمد آزاد احمد خان، ڈی آئی جی ایسٹ ذوالفقار لاڑک اور ایس ایس پی سنٹرل ڈاکٹر رضوان شامل ہوں گے، عدالت نے قراردیا کہ رائو انوار سے متعلق کیس کی آزادانہ تحقیقات ہوں گی ،یہ کیس کراچی ٹرانسفر اورکسی طرح کی عدالتی آبزرویشن متاثر نہیں ہوگا ، تحقیقات اور کیس کا فیصلہ ہونے تک رائوانوار کانام ای سی ایل میں شامل اور آئی جی سندھ ذاتی طور پر ان کی حفاظت کے ذمہ دار ہوں گے،سماعت کے دورا ن چیف جسٹس نے نقیب اللہ محسود کے والد اوردیگرعزیزواقارب سے کہا کہ وہ رائوانوار کی زندگی کے لے مشکلات پیدا نہ کرنے کے حوالے سے عدالت میں تحریری اقرار نامہ جمع کرائیں۔

چیف جسٹس کامزید کہناتھا کہ جب تک جرم ثابت نہیں ہوتا اس وقت تک ہر شخص عدالت کے سامنے معصوم ہے۔ اس کیس کی تحقیقات شفاف اور میڈیا سمیت کوئی بھی ادارہ اس پر اثرانداز نہیں ہوگا۔ عدالتی حکم پرپولیس اہلکاروں نے رائوانوار کو احاطہ عدالت سے گرفتار کرلیا ۔