نقیب اللہ محسود قتل کیس ،ْ مرکزی ملزم رائو انوار اچانک سپریم کورٹ میں پیش ،ْ

عدالت کے حکم پر گرفتار راؤ انوار کے وکیل کی جانب سے تفتیش کیلئے جے آئی ٹی میں حساس اداروں کے نمائندوں کو شامل کرنے کی استدعا مسترد ایڈیشنل آئی جی سندھ آفتاب پٹھان کی سربراہی میں جے آئی ٹی تشکیل ،ْ پولیس افسران ولی اللہ دل، آزاد خان، ذوالفقار لاڑک اور ڈاکٹر رضوان شامل راؤ انوار کے کیس کی تحقیقات آزادانہ ہوں گی، کیس کو کراچی ٹرانسفر کردیا جائیگا ،ْچیف جسٹس ثاقب نثار کسی طرح کی عدالتی آبزرویشن اس کیس کو متاثر نہیں کریگی ،ْ عدالتیں آزاد ہیں اور کسی کا اثر نہیں لیتیں ،ْ ریمارکس عدالت نے نقیب اللہ کے اہل خانہ سے راؤ انوار کو نقصان نہ پہنچانے کیلئے حلف نامہ بھی لیا … ملزم کے بینک اکائونٹس بحال عدالتی حکم پر خود کو پیش کر رہا ہوں ،ْ رائو انوار… قانون کے سامنے سرنڈر کر کے ہم پر کوئی احسان نہیں کیا ،ْچیف جسٹس جس دلیری سے آپ رہ رہے تھے اور جو خط آپ نے لکھے اس پر حیرت ہے ،ْ جو خط لکھے گئے ہیں ان کا تاثر درست نہیں ،ْ ریمارکس

بدھ 21 مارچ 2018 15:32

نقیب اللہ محسود قتل کیس ،ْ مرکزی ملزم رائو انوار اچانک سپریم کورٹ میں ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 مارچ2018ء) کراچی میں پولیس کے ہاتھوں نوجوان شہری نقیب اللہ محسود کے فرضی مقابلے میں قتل کے مقدمے کے مرکزی ملزم اور سابق ایس ایس پی ملیررائو انوار اچانک سپریم کورٹ میں پیش ہو گئے ہیں ،ْ عدالت کے حکم پر پولیس نے گرفتار کرلیا جبکہ عدالت عظمیٰ نے راؤ انوار کے وکیل کی جانب سے تفتیش کیلئے جے آئی ٹی میں حساس اداروں کے نمائندوں کو شامل کرنے کی استدعا مستردکرتے ہوئے ایڈیشنل آئی جی سندھ آفتاب پٹھان کی سربراہی میں جے آئی ٹی بھی تشکیل دیدی جس میں چار اعلیٰ پولیس افسران ولی اللہ دل، آزاد خان، ذوالفقار لاڑک اور ڈاکٹر رضوان شامل ہونگے ۔

بدھ کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے اسلام آباد میں نقیب اللہ قتل کے مقدمے کے بارے میں ازخود نوٹس کی سماعت شروع کی تو سابق ایس ایس پی راؤ انوار کو ایک سفید رنگ کی گاڑی میں عدالت لایا گیا ،ْسیاہ کپڑوں میں ملبوس راؤ انوار نے چہرے پر سرجیکل ماسک پہنا ہوا تھا۔

(جاری ہے)

عدالت میں مقتول کے ورثا ء کے علاوہ سندھ کے آئی جی اور دیگر اعلیٰ حکام بھی موجود تھے۔

سماعت کے دور ان رائو انوار نے کہا کہ وہ عدالتی حکم پر خود کو پیش کر رہے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے قانون کے سامنے سرنڈر کرکے ہم پر کوئی احسان نہیں کیا۔چیف جسٹس نے معطل ایس ایس پی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ جس دلیری سے آپ رہ رہے تھے اور جو خط آپ نے لکھے اس پر حیرت ہے ،ْ جو خط لکھے گئے ہیں ان کا تاثر درست نہیں ۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے راؤ انوار سے استفسار کیا کہ اتنے دن کہاں تھی کیوں نہیں آئی ہم نے موقع فراہم کیا تو کیوں نہیں سرنڈر کیا۔

اس پر راؤ انوار عدالت کے سامنے خاموش کھڑے رہے اور کوئی جواب نہیں دیا۔راؤ انوار کے وکیل نے جواب دیا کہ ان کے مؤکل حفاظتی ضمانت چاہتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم کوئی حفاظتی ضمانت نہیں دے رہے اور گرفتاری کے احکامات جاری کررہے ہیں۔جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ہم کمیٹی بنارہے ہیں، راؤ انوار کو جوکچھ کہنا ہے وہ اس کے سامنے جاکر کہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سمجھ نہیں آتی کہ آپ اتنے دلیر ہوگئے، عدالت کے سامنے سرنڈ نہیں کیا، مہلت دی پھر بھی نہیں آئے۔عدالت نے آئی جی سندھ سے انکوائری کمیٹی کے ممبران کی تفصیلات بھی طلب کی۔راؤ انوار کے وکیل نے کہا کہ انہیں سندھ پولیس سے اختلاف ہے کیونکہ پولیس ان کے مخالف ہوگئی ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کس طرح آپ کی پولیس آپ کے مخالف ہوگئی، آپ اس پولیس کے ملازم ہیں اور وہی پولیس آپ کے مخالف ہوگئی۔

معطل ایس ایس پی کے وکیل نے استدعا کی کہ کمیٹی میں ایجنسیز کو شامل کیا جائے، اس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کون سی ایجنسی کو شامل کیا جائی راؤ انوار کے وکیل نے کہا کہ آئی ایس آئی اور آئی بی کو کمیٹی میں شامل کیا جائے اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کیس سیدھا سیدھا ہے ان کا تفتیش سے کیا تعلق مجھے معلوم ہے آپ یہ کس وجہ سے کہہ رہے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالتیں آزاد ہیں اور کسی کا اثر نہیں لیتیں۔

نجی ٹی و ی کے مطابق عدالت نے کیس کی سماعت میں 10 منٹ کا وقفہ کیا اور وقفے کے بعد ایک بار پھر سماعت کا آغاز کرتے ہوئے راؤ انور کے بینک اکاؤنٹس کو بھی دوبارہ بحال کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ سابق ایس ایس پی ملیر کے بینک اکاؤنٹس بحال کر دئیے جائیں تاکہ ان کے بچوں کی روزی روٹی بحال ہو سکے اور جو تنخواہ انہیں جاتی تھی وہ بھی انہیں ملنی چاہیے۔

عدالت نے راؤ انوار کے وکیل کی جانب سے تفتیش کیلئے جے آئی ٹی میں حساس اداروں کے نمائندوں کو شامل کرنے کی استدعا مسترد کردی۔عدالت نے ایڈیشنل آئی جی سندھ آفتاب پٹھان کی سربراہی میں جے آئی ٹی بھی تشکیل دے دی جس میں چار اعلیٰ پولیس افسران ولی اللہ دل، ا?زاد خان، ذوالفقار لاڑک اور ڈاکٹر رضوان کو شامل کیا گیا ہے۔سپریم کورٹ نے راؤ انوار کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس خارج کردیا تاہم ان کا نام ای سی ایل میں برقرار رکھا گیا ہے جبکہ معطل ایس ایس پی کی گرفتاری کے احکامات نقیب اللہ قتل کیس میں جاری کیے گئے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ راؤ انوار کے کیس کی تحقیقات آزادانہ ہوں گی، کیس کو کراچی ٹرانسفر کردیا جائے گا جب کہ کسی طرح کی عدالتی آبزرویشن اس کیس کو متاثر نہیں کرے گی۔کیس کی سماعت کے موقع پر نقیب اللہ کے بزرگ عدالت میں موجود تھے۔ چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ یقین دہانی کرائیں کہ محسود قبیلے کی طرف سے راؤ انوار کی جان کو کوئی نقصان نہ پہنچایا جائے۔

عدالت نے نقیب اللہ کے اہل خانہ سے راؤ انوار کو نقصان نہ پہنچانے کیلئے حلف نامہ بھی لیا۔جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ تحقیقات ہونے تک راؤ انوار کو حفاظت میں رکھا جائے ،ْوہ جب تک سندھ پولیس کی حراست میں ہیں ان کی حفاظت پولیس کی ذمہ داری ہے۔بعد ازاں عدالت عظمیٰ کی جانب سے راؤ انوار کی گرفتاری کے احکامات جاری کیے جانے پر ایس ایس پی سیکیورٹی نے انہیں احاطہ عدالت سے گرفتار کیا۔

سپریم کورٹ سے گرفتاری کے بعد سندھ پولیس نے راؤ انوار کو اپنی تحویل میں لے لیا اور انہیں سخت سیکیورٹی میں ریڈ زون میں سیکیورٹی ڈویژن منتقل کردیا گیا جہاں سے انہیں پہلی دستیاب فلائٹ سے کراچی منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔یا د رہے کہ رواں ماہ 13 جنوری کو ملیر کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے نوجوان نقیب اللہ محسود کو دیگر 3 افراد کے ہمراہ دہشت گرد قرار دے کر مقابلے میں مار دیا تھا۔

بعدازاں 27 سالہ نوجوان نقیب محسود کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اس کی تصاویر اور فنکارانہ مصروفیات کے باعث سوشل میڈیا پر خوب لے دے ہوئی اور پاکستانی میڈیا نے بھی اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس معاملے پر آواز اٹھائی اور وزیر داخلہ سندھ کو انکوائری کا حکم دیا۔تحقیقاتی کمیٹی کی جانب سے ابتدائی رپورٹ میں راؤ انوار کو معطل کرنے کی سفارش کے بعد انہیں عہدے سے ہٹا کر نام ای سی ایل میں شامل کردیا گیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب تک جرم ثابت نہیں ہوتا اس وقت تک ہر شخص عدالت کے سامنے معصوم ہے۔انہوںنے کہا کہ نقیب اللہ قتل کیس میں تحقیقات شفاف ہونی چاہئیں، اور میڈیا سمیت کوئی بھی ادارہ یا عدالت تحقیقات پر اثرانداز نہیں ہوگا۔