جنوبی ایشیائی ممالک میں تجارت کی بڑی گنجائش موجود ،

فائدے کیلئے مضبوط کاروباری ایجنڈا کے ساتھ ملکر کام کرنے کی ضرورت ہے‘افتخار علی ملک خطہ کے ممالک کو اپنے جغرافیائی محل وقوع، قربت، یکساں ثقافتی اور اقتصادی ہم آہنگی کا بھر پور فائدہ اٹھانے کیلئے بہت مضبوط کاروباری ایجنڈا کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے

بدھ 21 مارچ 2018 13:45

جنوبی ایشیائی ممالک میں تجارت کی بڑی گنجائش موجود ،
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 مارچ2018ء) سارک چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر افتخار علی ملک نے کہا ہے کہ جنوبی ایشیائی ممالک میں خدمات کی تجارت کی بڑی گنجائش موجود ہے اور اس پوٹینشل سے بھر پور فائدہ اٹھانے کیلئے انہیں مضبوط کاروباری ایجنڈا کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔گذشتہ روز نیپال میں چھٹی 3 روزہ سارک بزنس کنکلیو میں شرکت کے بعد واپسی پر صحافیوں سے ایک ملاقات کے دوران افتخار علی ملک نے کہا کہ خطہ کے ممالک کو اپنے جغرافیائی محل وقوع، قربت، یکساں ثقافتی اور اقتصادی ہم آہنگی کا بھر پور فائدہ اٹھانے کے لئے بہت مضبوط کاروباری ایجنڈا کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ بزنس کنکلیو ایک بڑی کامیابی تھی کیونکہ بھوٹان، نیپال اور سارک ممبران کے تمام بزنس لیڈرز اور وزراء، خاص طور پر نیپال کے وزیر اعظم کے پی شرما اولی نے اتفاق کیا کہ سیاسی چیلنجز اور مجبوریوں کے باوجود سارک ممالک کے لئے اقتصادی ایجنڈا سب سے اہم ہے مگر بدقسمتی سے یہ سب ہماری ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ہمارے درمیان پائیدار تعلقات کے قیام کیلئے اقتصادی ایجنڈا سر فہرست ہونا چاہیئے۔

ہمارے سیاسی اختلافات ختم نہیں ہو رہے اس لئے ہمیں آگے بڑھ کر اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ہم کس طرح اقتصادی ایجنڈے اور مساوات کو اپنی اولین ترجیح بنا سکتے ہیں۔ دنیا بھر میں دیگر خطوں کا جنوبی ایشیا کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے افتخار علی ملک نے کہا کہ دنیا کی آبادی کا پانچواں حصہ سارک علاقے میں رہائش پذیر ہے جبکہ دنیا کے ہر پانچ میں سے دو غریبوں کا تعلق اس علاقے سے ہے۔

اس خطے کا عالمی پیداوار میں حصہ صرف 3 فی صد اور دنیا کی برآمدات میں حصہ صرف 2 فی صد ہے۔ اس خطے کی انٹرا ریجنل تجارت اس کی مجموعی تجارت کا تقریبا 5 فیصد ہے جبکہ مشرقی ایشیا میں یہ تناسب 50 فی صد اور لاطینی امریکہ میں تقریباً 20 فی صد ہے۔ یہاں تک کہ انتہائی نامناسب ٹرانسمیشن اور ٹیلی مواصلات کے کمزور بنیادی ڈھانچے کے باوجود افریقہ میں یہ تناسب 10 فی صد سے زیادہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ سب سے زیادہ منسلک ملک اور خطے کی سب سے بڑی معیشت ہونے کی وجہ سے اس کی سب سے زیادہ ذمہ داری بھارت پر عائد ہوتی ہے اور سارک کے تمام ممران کے لئے اس کی بڑی مارکیٹوں تک رسائی کی سہولت ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ نان ٹیرف رکاوٹیں بھی بڑے مسائل کو جنم دے رہی ہیں اور یہ بھارت کا فرض ہے کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے دیگر رکن ممالک کے ساتھ تعاون کو فروغ دینے اور تجارت بڑھانے کے لئے آگے بڑھ کر اقدامات کرے۔

انہوں نے کہا کہ ایک اور بڑی رکاوٹ نان ٹیرف رکاوٹوں کے بارے میں شعور کی کمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کاروباری تنظیموں اور اداروں کو اس سے آگاہی کے لئے سیمینار منظم کرنا چاہئیں اس سے بھی تجارت میں اضافہ میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ سارک کے رکن ممالک کو سیاحت اور خدمات کی علاقائی تجارت کی طرف توجہ دینی چاہیئے اس سے بھی جنوبی ایشیا کی معیشت کو عالمی سطح پر مسابقت میں مدد ملے گی، اسی طرح، توانائی اور بجلی کے شعبہ جات میں تعاون بھی تجارتی تعلقات کے غیر روایتی شعبے ہیں جن کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

جنوبی ایشیا میں بجلی کا مربوط گرڈ بجلی کے اخراجات کو کم کرنے اور تمام رکن ممالک کے لئے مینوفیکچرنگ کی مسابقت بڑھانے میں معاون ہو سکتا ہے۔ پاکستان، نیپال، بھوٹان، افغانستان اور بھارت میں بھاری ہائیڈرو الیکٹرک صلاحیت موجود ہے جس کو انٹرا ریجنل بجلی کے کاروبار کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ سارک ارکان نے اسلام آباد میں سارک چیمبر ہیڈکوارٹرز کی 9 منزلہ سٹیٹ آف دی آرٹ عمارت کی تعمیر کے ضمن میں پاکستان کے کردار کو سراہا جو افتخار علی ملک کی ذاتی کاوشوں اور بھر پور دلچسپی کی وجہ سے آئندہ ستمبر تک پایہ تکمیل تک پہنچے گی۔

اس موقع پر سارک چیمبر کے ایڈوائزر زبیر احمد ملک نے کہا کہ یہ کانفرنس یقینی طور پر خطے میں زیادہ خوشحالی اور اسے اقتصادی ترقی کے راستے پر گامزن کرنے کیلئے ایک بڑی کوشش ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سارک کے پلیٹ فارم پر متحد ہو جائیں تو معاشی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے جس سے خطے کے تمام ممالک اور عوام مستفید ہونگے۔