لندن فلیٹس ریفرنس، نواز شریف کی متفرق درخواست پر فیصلہ محفوظ

واجد ضیاء نے نواز شریف کی کیپیٹل ایف زیڈ ای میں ملازمت سمیت دیگر ریکارڈ پیش کر دیا عدالت نے مزید سماعت22 مارچ تک ملتوی کر دی،واجد ضیاء مزید بیان ریکارڈ کرائیں گے

منگل 20 مارچ 2018 22:14

لندن فلیٹس ریفرنس، نواز شریف کی متفرق درخواست پر فیصلہ محفوظ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 20 مارچ2018ء) اسلام آباد کی احتساب عدالت میں نواز شریف اور ان کے اہلخانہ کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے دائر متفرق درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ سماعت کے دوران جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی )کے سربراہ واجد ضیاء کی جانب سے لندن فلیٹ ریفرنس سے متعلق مختلف دستاویزات پیش کر دی گئیں جبکہ احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی متفرق درخواست پر فیصلہ محفوظ کر تے ہوئے مزید سماعت 22مارچ کے لئے ملتوی کردی۔

گزشتہ روز اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر خان نے شریف خاندان کے خلاف کرپشن ریفرنس کی سماعت کی۔فاضل جج نے جب سماعت شروع کی تو فلیگ شپ ریفرنس سے متعلق آف شور کمپنیوں کی دستاویزات اورامارات سفارتخانے کا جوابی عدالت میں پیش کیا گیا۔

(جاری ہے)

استغاثہ کے گواہ واجد ضیا نے کیلیبری فونٹ سے متعلق رپورٹ عدالت میں پیش کی جسے عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنا دیا گیا۔

دوران سماعت لندن فلیٹ ریفرنس سے متعلق واجد ضیا کی پیش کردہ مختلف دستاویزات پر مریم نواز کے وکیل نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ کچھ دستاویزات تو عربی میں ہیں۔شاید واجد ضیا ء کو عربی سمجھ آئے۔ انھوں نے عربی میں ڈگری حاصل کی ہو گی۔ دوران پاناما پیپرز کیس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے عبوری فیصلے کی روشنی میں بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ واجد ضیائ نے اپنا بیان قلمند کروایا۔

نوازشریف کی کیپیٹل ایف زیڈ ای میں ملازمت کا ریکارڈ پیش کرتے ہوئے واجد ضیائ نے عدالت کو بتایا کہ جفزا اتھارٹی کے لیٹر میں نواز شریف کی ملازمت کی تصدیق کی گئی، خط کے مطابق نواز شریف کیپیٹل ایف زیڈ ای کے بورڈ کے چیئرمین تھے۔ نواز شریف 10 ہزار درہم ماہانہ تنخواہ وصول کررہے تھے، جس پر مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے اعتراض کیا کہ کیسے ثابت ہوگا کہ یہ عوامی دستاویزات ہے جبکہ اس خط کی کہیں سے بھی تصدیق نہیں کرائی گئی، اور اس سے یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ یہ خط کسے لکھا گیا۔

اس دوران نیب پراسیکیوٹر عمران شفیق نے عدالت کو بتایا کہ جفزا ویسے ہی اتھارٹی ہے جیسے پاکستان میں سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن پاکستان (ایس ای سی پی) ہے، جس پر امجد پرویز نے اعتراض کیا کہ یہ کیسے ثابت ہوگا کہ جے ا?ئی ٹی کے ممبران نے جفزا اتھارٹی سے یہ خط لیا۔دوران سماعت مریم نواز کے وکیل کے اعتراض پر عدالت نے دستاویزات کو ریکارڈ کا حصہ بنا دیا۔

سماعت کے دوران نواز شریف کے بچوں کی آف شور کمپنیوں کی مالیاتی اسٹیٹمنٹ کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بھی بنا گیا، اس کے ساتھ ساتھ واجد ضیائ نے عدالت میں شیزی نقوی کے بیان حلفی اور کوئسٹ سلیسٹر اختر ریاض راجا کو لکھے گئے خط کی نقول بھی پیش کی گئیں۔عدالت میں واجد ضیائ نے نواز شریف کے بچوں کی آف شور کمپنیوں کی مالیاتی اسٹیٹمنٹ، فنڈز فلو چارٹ اور باہمی قانونی مشاورت کے تحت متحدہ عرب امارات (یو اے ای) سے آنے والا جوابی خط بھی عدالت میں پیش کیا۔

واجد ضیائ کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ باہمی قانونی مشاورت کے تحت جے ا?ئی ٹی کی طرف سے لکھے گئے خط کی کاپی جلد 10 میں ہے اور یہ جلد سربمہر ہے۔دوران سماعت واجد ضیاء کے ریکارڈ پر مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے اعتراض کیا کہ یہ وہ خط تو دکھا نہیں رہے جس کے جواب میں یو اے ای حکام کا جواب آیا۔وکیل امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ ہمیں فراہم کی گئی جے آئی ٹی رپورٹ میں بھی اس خط کی نقل شامل نہیں، ہمیں نامکمل کاپی فراہم کی گئی، جس کے انڈیکس میں بھی خط کا حوالہ نہیں ہے۔

عدالت میں وکیل مریم نواز نے اعتراض کیا کہ ملزمان کو دی جانے والی جے آئی ٹی رپورٹ کی جلد 3 کی نقل میں آخری صفحہ 235 ہے جبکہ عدالت اور نیب کے پاس موجود نقل میں آخری صفحہ 243 ہے، لہٰذا مطابق جلد 3 کے اضافی 8 صفحات کیوں غائب ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارے خلاف پیش کیے گئے تمام دستاویزات ملنا ہمارا حق ہے، جس پر نیب پروسیکیوٹر نے جواب دیا کہ بائنڈنگ کے وقت کچھ صفحات رہ گئے ہوں گے، اضافی 8 صفحات فراہم کردیں گے۔

سماعت کے دوران وکیل مریم نواز نے بتایا کہ جن خطوط کا جواب عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنایا گیا وہ کیوں پیش نہیں کیے جارہی خط کے بغیر صرف جواب کیسے ریکارڈ کا حصہ بن سکتا اس دوران نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ امجد پرویز بیان کے دوران جرح کررہے ہیں، جس پر امجد پرویز نے کہا کہ میں جرح نہیں کر رہا، جو چیزیں ہمیں نہیں دی گئیں اس کی طرف عدالت کی توجہ مبذول کروا رہا ہوں۔

اس بارے میں مریم نواز کے وکیل نے کہا تھا کہ جے آئی ٹی کے سربراہ کی جانب سے پیش کی جانے والی فوٹو کاپی کی کاپیاں غیر مصدقہ ہیں۔قبل ازیں نواز شریف کی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ جے آئی ٹی رپورٹ 3حصوں پر مشتمل ہے، اس کا ایک حصہ دستاویزات، دوسرا حصہ بیانات جبکہ تیسرا حصہ تجزیات پر مشتمل ہے۔ درخواست میں کہا گیا کہ واجد ضیائ گناہ اور بے گناہی سے متعلق عدالتی دائرہ اختیار میں نہیں آسکتے، اس کا تعین عدالت نے کرنا ہے، واجد ضیائ نے نہیں۔

نواز شریف کی درخواست میں کہا گیا کہ تفتیشی افسر رائے دینے کا حق نہیں رکھتا جبکہ ماہرین ہی اس طرح کی رائے دے سکتے ہیں، حقائق اور آرائ میں فرق ہوتا ہے۔سماعت کے دوران نیب پروسیکیوٹر نے نواز شریف کی درخواست پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ واجد ضیا نے سپریم کورٹ کی طرف سے دیے گئے سوالات کی روشنی میں تحقیقات کیں۔انہوں نے کہا کہ جس عمل کے تحت دستاویزات حاصل کیں اس سے متعلق وضاحت ضروری ہے، اگر واجد ضیاء نے گناہ اور بے گناہی سے متعلق رائے دی تو عدالت روک دے۔

نیب پروسیکیوٹر نے کہا کہ قانون شہادت واجد ضیائ کو اپنی کی گئی تحقیق سے متعلق وضاحت سے نہیں روکتا۔اس موقع پر وکیل امجد پرویز نے دلائل دیے کہ ایک بار طے کرلیں واجد ضیاء نے کیا کہنا ہے اور کیا نہیں، جب وہ رائے یا تجزیہ دیتے ہیں تو ہم اعتراض اٹھاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ واجد ضیائ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ 1980 کا طارق شفیع اور عبداللہ علی کے درمیان معاہدہ ایون فیلڈ پراپرٹیز کے حوالے سے اہم ہے، جس پر نیب پروسیکیوٹر نے کہا کہ ان کے ذمہ سپریم کورٹ نے یہ کام لگایا تھا کہ وہ اس معاہدے سے متعلق تحقیقات کریں۔

نیب پروسیکیوٹر کے دلائل پر امجد پرویز نے کہا کہ جے آئی ٹی کو جو 13 سوالات دیے گئے تھے وہ سپریم کورٹ کیلئے ہی تھے، جے آئی ٹی کی تحقیق کی بنیاد پر سپریم کورٹ نے کوئی فائنڈنگ نہیں دی۔وکیل امجد پرویز نے کہا کہ تحقیقات کی روشنی میں انہوں نے جہاں محسوس کیا ایک جواب گذار کو نااہل قرار دیا، لہٰذا جو جے آئی ٹی کا مواد ہے وہ مقدس نہیں ہوسکتا۔اس دوران جج محمد بشیر نے کہا کہ پروسیکیوشن گواہ کو لیڈ کرے تاکہ عدالتی کارروائی میں تعطل نہ آئے بعد ازاں عدالت نے نواز شریف کی متفرق درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا