پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے وزارت پوسٹل سروسز سے بولی میں حصہ لینے والی ملکی اور غیرملکی کمپنیوں کی تفصیلات طلب کرلیں

وزارت پوسٹل سروسز 15 دنوں میں پرائیویٹ پبلک پارٹنرشپ کا پورا ماڈل اور کنسلٹنٹ کی طرف سے دی گئی تجاویز کے ساتھ تمام تفصیلات پی اے سی کو فراہم کرے ،ْکمیٹی ادارہ کے ملازمین کی ویلفیئر سمیت تمام امور کا جائزہ لے کر ہی کسی منصوبہ کی اجازت دی جا سکتی ہے ،ْ سید خورشید شاہ پی ٹی سی ایل کی طرح اس ادارہ کی نجکاری نہیں کی جا رہی، پرائیویٹ پبلک پارٹنرشپ کے کسی بھی پروگرام کا تمام تر کنٹرول ہمارے پاس رہے گا ،ْسیکرٹری پوسٹل سروسز ثاقب عزیز کی بریفنگ

منگل 20 مارچ 2018 18:58

پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے وزارت پوسٹل سروسز سے بولی میں حصہ ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 مارچ2018ء) پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے وزارت پوسٹل سروسز سے بولی میں حصہ لینے والی ملکی اور غیرملکی کمپنیوں کی تفصیلات طلب کر تے ہوئے کہا ہے کہ وزارت پوسٹل سروسز 15 دنوں میں پرائیویٹ پبلک پارٹنرشپ کا پورا ماڈل اور کنسلٹنٹ کی طرف سے دی گئی تجاویز کے ساتھ تمام تفصیلات پی اے سی کو فراہم کرے جبکہ سیکرٹری پوسٹل سروسز ثاقب عزیز نے بتایا ہے کہ پی ٹی سی ایل کی طرح اس ادارہ کی نجکاری نہیں کی جا رہی، پرائیویٹ پبلک پارٹنرشپ کے کسی بھی پروگرام کا تمام تر کنٹرول ہمارے پاس رہے گا ،ْادارہ سے کسی ملازم کو نہیں نکالا جائے گا، بولی دہندہ کی پیشکش اسی صورت میں قبول کی جائے گی جب وہ ہمارے 8 ارب 70 کروڑ روپے کے ریونیو سے زیادہ بولی دے گا۔

(جاری ہے)

منگل کو پی اے سی کا اجلاس چیئرمین سیّد خورشید شاہ کی زیرصدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا جس میں کمیٹی کے ارکان محمود خان اچکزئی، راجہ جاوید اخلاص، سیّد غلام مصطفی شاہ، شاہدہ اختر علی، شفقت محمود، ڈاکٹر غذرا فضل، ڈاکٹر عارف علوی، چوہدری پرویز الٰہی، سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری، عبدالرشید گوڈیل اور رانا افضال حسین کے علاوہ متعلقہ سرکاری محکموں کے اعلیٰ افسران نے شرکت کی۔

ڈائریکٹر جنرل پوسٹ ڈاکٹر نصیر احمد نے پی اے سی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے وزیراعظم سے 2 ارب 50 کروڑ کی درخواست کے علاوہ پوسٹل سروسز کے بزنس کو بڑھانے کیلئے پرائیویٹ پبلک پارٹنرشپ کی اجازت طلب کرنے کی سمری ارسال کی، فنڈز تو نہیں ملے تاہم پرائیویٹ پبلک پارٹنرشپ کی اجازت مل گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ موبائل منی پراجیکٹ اپنی نوعیت کا پہلا منصوبہ ہے، اس کے ذریعے رقوم کی بروقت اور جلد ترسیل یقینی بنائی جا سکے گی۔

انہوں نے کہا کہ موبائل کمپنیاں اپنی سروسز کے ذریعے 6 ارب روپے کی ترسیل کرتی ہیں، اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے اس منصوبہ کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ گورنمنٹ کے 12 ہزار مراکز کے ذریعے ہم یہ کام ایزی پیسہ اور دیگر پرائیویٹ سروسز سے بہتر کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم ارجنٹ میل سروس کے ساتھ ساتھ ایس ایم ایس کی خدمت بھی فراہم کرتے ہیں، ہمیں فنڈز مل جائیں تو ہم مارکیٹ کے 20 فیصد شیئر تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں، ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں، ہمارے پاس واحد راستہ پرائیویٹ پبلک پارٹنرشپ ہے، ہم نے پرائیویٹ پبلک پارٹنرشپ اتھارٹی بنا دی ہے، اس منصوبہ کو شفاف انداز میں پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے گا، کوریا کی ایک کمپنی نے ایگزم بینک کے ذریعے ہمیں آسان شرائط پر قرضہ فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے، ہم نے پی ایس ڈی پی میں 62.540 ملین روپے طلب کئے تھے، کوریا کی کمپنی ہمیں تقریباً 2171 ملین روپے فراہم کرے گی۔

سیّد خورشید احمد شاہ نے کہا کہ 2 ارب روپے کی رقم کیلئے بھی ہمیں غیروں کے پاس جانا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اوپن ٹینڈ کئے جائیں تو عالمی سطح کی پاکستانی کمپنیاں بھی بطور پارٹنر شامل ہو جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں پی ٹی سی ایل کی نجکاری سے سبق حاصل کرنا چاہئے، ابھی تک پی ٹی سی ایل کی انتظامیہ نے ہمارے 100 ملین ڈالر 12 سالوں میں ادا کرنے ہیں، اگر یہ رقم ہمارے پاس ہوتی تو اب تک یہ دو گنا ہو جاتی۔

انہوں نے کہا کہ پوسٹل سروسز کی جائیدادیں اربوں روپے مالیت کی ہیں، اپنے وسائل کو بروئے کار لا کر ہمیں کوئی منصوبہ شروع کرنا چاہئے۔ ڈی جی پوسٹ نے کہا کہ اس منصوبہ کیلئے ہم ادارے کا کوئی اثاثہ نہیں بیچنے جا رہے۔ پرائیویٹ پبلک پارٹنرشپ میں دونوں فریقین کے حصے کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے پی اے سی نے وزارت پوسٹل سروسز سے بولی میں حصہ لینے والی ملکی اور غیرملکی کمپنیوں کی تفصیلات طلب کر لیں۔

ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ 2008ء تک منافع میں جانے والا ادارہ نقصان میں اس لئے چلا گیا کہ مارکیٹ میں موجود دیگر کمپنیوں نے مقابلے میں پوسٹل سروسز کی خدمات پر منافع پر نظرثانی نہیں کی گئی۔ ارکان کی طرف سے اٹھائے گئے نکات کے سوال کے جواب میں سیکرٹری پوسٹل سروسز ثاقب عزیز نے کہا کہ پی ٹی سی ایل کی طرح اس ادارہ کی نجکاری نہیں کی جا رہی، پرائیویٹ پبلک پارٹنرشپ کے کسی بھی پروگرام کا تمام تر کنٹرول ہمارے پاس رہے گا، دو دفعہ اوپن ٹینڈر دیا ہے، پاکستانی اور چینی کمپنی نے بھی بولی دی ہے۔

ڈی جی پوسٹ نے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کوریا کا دنیا میں اس وقت سب سے بہترین پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ ماڈل ہے، مگر ہمارا اولین مقصد مقامی پارٹنر تلاش کرنا ہے۔ عبدالرشید گوڈیل نے کہا کہ کوریا کی کمپنی ایزی پیسہ کے ذریعے پوسٹل سروسز کے مقابلہ پر ہے، ہم سے مارکیٹ میں مقابلہ پر موجود کمپنی ہمیں کیا فائدہ دیگی۔ سیّد خورشید احمد شاہ نے کہا کہ اگر عالمی سطح ہر کوریا کی کمپنی بہترین کام کر رہی ہے تو ان کی ماہرانہ صلاحیت سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔

سیکرٹری مواصلات نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اقتصادی امور ڈویژن کے ذریعے دو ممالک کے درمیان حکومتی سطح پر بات چیت چل رہی ہے، اگر ہم پاکستانی بینک سے رقم لیں گے تو اس پر 14 سے 15 فیصد سود دینا پڑے گا، کوریا سے قرضہ 0.5 فیصد سے کم پر ملے گا۔ ڈاکٹر عذرا فضل نے کہا کہ غیرملکی کمپنیاں منافع کما کر اپنے ملک لے جائیں گی، ہماری تشویش یہ ہے کہ اس میں پاکستان کا نقصان ہوگا۔

ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ ادارہ کے اخراجات بڑھے ہیں۔ ڈی جی پوسٹ نے کہا کہ گورنمنٹ نے سیونگ بینک میں ہمارا کمیشن کم کیا، ادارہ کے ملازمین کی 50 فیصد تنخواہیں بڑھیں، ہمارے اخراجات اور نقصانات ہمارے اختیار میں نہیں ہیں، مینوئل منی ٹرانسفر کی ہماری خدمات کے مقابلہ میں ایزی وغیرہ کامیابی سے چل رہی ہیں جس سے ہمارا بزنس متاثر ہوا ہے۔

عبدالرشید گوڈیل نے کہا کہ ایک معمولی سافٹ ویئر حاصل کرکے یہ کام کیا جا سکتا ہے۔ سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ اس قومی ادارہ کی گھر گھر تک رسائی ہے، یہ ادارہ 1947ء سے اب تک وہیں کھڑا ہے، جدید تقاضوں کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔ سیکرٹری پوسٹل سروسز نے کہا کہ 2010ء کے بعد ادارہ کو نقصان ہونا شروع ہوا، ڈاک ٹکٹ اب بھی 8 روپے کا ہے جس کی چھپائی پر 17 سے 18 روپے خرچ آتا ہے، ٹکٹ کی قیمت اگر ہم 40 روپے کر لیں تو ہمیں سالانہ اڑھائی سے تین ارب روپے اضافہ حاصل ہوں گے۔

انہوں نے تسلیم کیا کہ ادارہ کا آپریشن بروقت کمپیوٹرائزڈ نہ کرنے کی وجہ سے ہم پیچھے رہ گئے ہیں، ہم ادارہ کی نجکاری نہیں کر رہے، اب بھی ہم نے بروقت اقدامات نہ اٹھائے تو ادارہ کا خسارہ کم نہیں ہوگا۔ سیکرٹری پوسٹل سروسز نے کہا کہ ہمارے بجٹ کا 79 فیصد حصہ تنخواہوں اور پینشن پر خرچ ہوتا ہے، ہر سال 10 سے 20 فیصد اضافہ ہمارے ریونیو پر اثرانداز ہوتا ہے، وزارت خزانہ کے ساتھ بات چیت جاری ہے کہ ادارہ کے ریٹائرڈ ملازمین کی پینشن ہمارے بجٹ سے نکال لی جائے تو اس سے ہمیں سالانہ 4 ارب روپے کا فائدہ ہوگا، ٹکٹ کی قیمت میں آخری اضافہ 2009ء میں ہوا تھا، ہم نے اضافہ کی سمری 2015ء میں کابینہ کو بھجوائی تھی۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ادارہ سے کسی ملازم کو نہیں نکالا جائے گا، بولی دہندہ کی پیشکش اسی صورت میں قبول کی جائے گی جب وہ ہمارے 8 ارب 70 کروڑ روپے کے ریونیو سے زیادہ بولی دے گا۔ پی اے سی نے ہدایت کی کہ وزارت پوسٹل سروسز 15 دنوں میں پرائیویٹ پبلک پارٹنرشپ کا پورا ماڈل اور کنسلٹنٹ کی طرف سے دی گئی تجاویز کے ساتھ تمام تفصیلات پی اے سی کو فراہم کی جائیں۔ سیّد خورشید احمد شاہ کا کہنا تھا کہ ہم اس طرح پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی اجازت نہیں دے سکتے، ادارہ کے ملازمین کی ویلفیئر سمیت تمام امور کا جائزہ لے کر ہی کسی منصوبہ کی اجازت دی جا سکتی ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ ہم پرائیویٹ سیکٹر کے مخالف نہیں ہیں۔