مسلم لیگ (ن) میں چار سال سے تبدیلی آئی ، 30سال پہلے جو آزادی تھی اب نہیں ، چوہدری نثار علی خان

نواز شریف پہلے سادہ ‘ نرم مزاج ، مشاورت کرنے والے انسان تھے مگر آج ایسا ماحول نہیں جو میری اختلافات کی بڑی وجہ ہے، پہلے دن سے موقف تھا سپریم کورٹ سے تصادم کی پالیسی نواز شریف کے لئے بہتر نہیں، پارٹی سے کبھی عزت کے سوا کوئی عہدہ مانگا نہ کسی عزیز کو نوازا، سابق وزیر داخلہ غیب کا علم نہیں جانتا نواز شریف نے پیسہ کہاں سے بنایا اور لندن فلیٹس کہاں سے آئے،نواز شریف کو تحفظات ہیں تو آئینی اور قانونی راستہ اپنائیں‘ مریم نواز پارٹی لیڈر بنتی ہیں تو میں حصہ نہیں ہوں گا، اپنی زندگی میں کبھی ٹکٹ کے لئے درخواست کی نہ ہی کسی ٹکٹ کا محتاج ہوں، انٹرویو

پیر 19 مارچ 2018 22:42

مسلم لیگ (ن) میں چار سال سے تبدیلی آئی ، 30سال پہلے جو آزادی تھی اب نہیں ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 19 مارچ2018ء) سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) میں 4 سال سے تبدیلی آئی ہے جو 30 سال سے آزادی رائے تھی اب نہیں ہے نواز شریف پہلے سادہ ‘ نرم مزاج اور مشاورت کرنے والے تھے مگر آج ایسا ماحول نہیں جو میری اختلافات کی بڑی وجہ ہے پہلے دن سے موقف تھا کہ سپریم کورٹ سے تصادم کی پالیسی نواز شریف کے لئے بہتر نہیں پارٹی سے کبھی عزت کے سوا کوئی عہدہ مانگا نہ کسی عزیز کو نوازا ۔

غیب کا علم نہیں جانتا نواز شریف نے پیسہ کہاں سے بنایا اور لندن فلیٹس کہاں سے آئے۔ نواز شریف کو تحفظات ہیں تو آئینی اور قانونی راستہ اپنائیں‘ مریم نواز پارٹی لیڈر بنتی ہیں تو میں حصہ نہیں ہوں گا۔ اپنی زندگی میں کبھی ٹکٹ کے لئے درخواست کی نہ ہی کسی ٹکٹ کا محتاج ہوں۔

(جاری ہے)

پیر کے روز نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ پارٹی سے برا پرانا تعلق ہے ایک ہی پارٹی دیکھی ہے میرا 34 واں سال شاروع ہوا ہے ۔

اختلافات رائے چلتا رہا مگر گزشتہ چار سالوں سے وہ نوبت نہیں آئی۔ رائے کی ازادی ہے مگر اب گزشتہ تیس سالوں والے حالات نہیں ہیں۔ میں نے ہمیشہ پارٹی میں کھل کر اظہار رائے پیش کیا تجویز دی ضروری نہیں تجویز قبول ہوئیں مگر میں کبھی روٹھ کر نہیں بیٹھا۔ پارٹی کے اندر گزشتہ چار سال سے تبدیلی آئی ہے خصوصاً گزشتہ دس ماہ مین تبدیلی آچکیہے۔ اب اختلاف رائے کی آزادی نہیں جو ماضی مین تھی۔

نواز شریف کی حکومت کے آخری دنوں میں نواز شریف کے پاس گیا اور کہا کہ پارٹی کے اندر میرے علاوہ کوئی ایسا شخص نہیں بچا جو پارٹی کی غلطیوں کو آپ کے منہ پر کریں میرا ہمیشہ یہ ہی رول رہا جو غلطیاں تھیں بتاتا ہوں میاں صاحب نے کہا مجھے آپ کی وفاداری محبت پر کوئی شک نہیں آپ جاری رکھیں مگرمایں صاحب نے میری باتیں تو سنی مگر عمل نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ 85 میں نواز شریف وزیراعلیٰ کے امیدوار تھے میرے سمیت ایم پی ایز کا گروپ تھا جنہوں نے کہا کہ نواز شریف اچھے کاروباری شخص ہیں ہمیں اچھے لگے اور ان کو سپورٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس وقت نواز شریف بڑے سیاستدان یا سیاسی دائو پیچ سے ناواقف تھے۔ اس نئے ینگ گروپ نے پارٹی کے اندر اسے تحرک عدم اعتماد آئی اور اسی گروپ کے مقابلہ کیا یہی گروپ نواز شریف کی سیاست کی مضبوطی کا باعث بنا۔ چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ نواز شریف اور خاندان سادہ ‘ نرم مزاج ‘ مشاورت پسند تھے مگر آج ایسا نہیں ہے وہ اب ان میں مشاورت والی بات نہیں ہے۔

جو مریے اختلافات کا باعچ بنیں وہ ہمیشہ تنقید کو برداشت کرتے تھے۔ میں 34 سال رہ کر پارٹی سے کچھ نہیں مانگا‘ نہ تو پارٹی عہدہ اور نہ ہی وزارت ‘ نہ ہی اپنے خاندان کے افراد کیلئے عہدے مانگے۔ پارٹی میں جب تک عزت ملتی رہی حالات ٹھیک رہے۔ لیڈر وقت کے ساتھ ساتھ بنتا ہے نواز شریف شروع میں سیاست سے ناواقف تھے ہمیشہ مشاورت کے ستاھ چلے پیپلزپارٹی مخالف لیڈر کی ضرورت تھی جس کو نواز شریف اچھے انداز میں نبھایا انہوں نے کہا کہ مین نے اپنی ذمے داریاں اچھے انداز میں ادا کیں۔

بدقسمتی سے ملک میں اچھے کرنے والوں کی قدر نہیں بڑے کی پکڑ نہیں شناختی کارڈ ‘ ویزہ پالیسی ‘ سیکیورٹی پالیسی اور کراچی امن کیلئے ادامات کئے پہلے کوئی الطاف حسین کا نام نہیں لیتا تھا غیب اک علم نہیں مگر نواز شریف کو کبھی کرپشن کرتے نہیں پایا‘ پیسہ اور فلیٹ کہاں سے بنائے معلوم نہیں نواز شریف پر 90 اور مشرف کے دورمین بھی الزامات لگتے رہے۔

ابھی تک ثابت کیوں نہیں ہوئے۔ اگر کرپشن کرتے دیکھچا ہوتا تو وہ ان کے ساتھ نہ ہوتا۔ عدالت نواز شریف سے پوچھ رہی ہے وہ جواب دے رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصے پر عمل ہونا چاہیے سپریم کورٹ میں کیس لے کر ہم خود گئے اگر سپریم کورٹ کا فیصلہ غلط ہوا تو اس کے ذمہ دار بھی ہم خود ہوں گے۔ میں واحد آدمی ہوں جس نے کہا تھاکہ کیس کو سپریم کورٹ میں نہیں لے کر جانا چاہیے میٹنگ میں باقی تمام افراد نے لے کر جانے کا کہا تھا۔

اگر سپریم کورٹ کے فیصل پر تحفظات ہیں تو قانونی طور پر مقابلہ کریں مگر اس کو متنازعہ نہ بنائیں۔ نواز شریف کیس میں جیل گئے تو پارٹی کو نقصان ہوگا۔ مریم نواز پاارٹی لیدڑ نہیں ہین اگر ان کو پارٹی لیڈر بنایا جاتا ہے تو میں پارٹی کا حصہ نہیں ہوں گا۔ شہباز شریف کٹھ پتلی کی طرح کام نہیں کرین گے بڑے جلسوں سے الیکشن کا دندازہ نہیں کیا جاسکتا عمران خان کی پارٹی میں شمولیت کی خواہش کا احترام کرتا ہوں الیکشن کے آہوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میاں رضا ربانی پاکستانی تاریخ میں بہتری چیئرمین سینیٹ رہے رضا ربانی کو اگر پارٹی سینیٹ چیئرمین لانا چاہتی تھی تو ان کے نام کا اعلان نہیں کرنا چاہیے تھا راجہ ظفر پارٹی کے بڑے قدآور شخص ہیں جب ہمارے نمبر پورے نہین تھے تو ان کا نامزد نہین کرنا چاہیے تھا اور نامزد ڈپٹی چیئرمین کو اداروں اور پنجاب کیخلاف بات کرنے پر ووٹ نہین دیتا۔