ایف ائی اے نے گرینڈ حیات ٹاور میں ہونے والی 30 ارب روپے کی کرپشن کی خود ہی نشاندہی کرکے خود ہی سب کو کلین چٹ دینے

کا اہتمام کردیا ایف آئی اے کے ڈی جی نے پہلے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ میں کرپشن کے تمام ثبوت دیئے اور پھر اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی ثبوتوں سے بھرپور چالان پیش کردیا

پیر 19 مارچ 2018 22:58

ایف ائی اے نے گرینڈ حیات ٹاور میں ہونے والی 30 ارب روپے کی کرپشن کی خود ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 19 مارچ2018ء) ایف ائی اے نے گرینڈ حیات ٹاور میں ہونے والی 30 ارب روپے کی کرپشن کی خود ہی نشاندہی کرکے خود ہی سب کو کلین چٹ دینے کا اہتمام کردیا۔ ایف آئی اے کے ڈی جی نے پہلے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ میں کرپشن کے تمام ثبوت دیئے اور پھر اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی ثبوتوں سے بھرپور چالان پیش کردیا۔

ایف آئی اے نے گرینڈ حیات ٹاور میں 30 اپارٹمنٹس کو بطور تحفہ دیئے جانے کا انکشاف بھی کیا۔ موجودہ ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے کرپٹ افراد کو کلین چٹ دینے میں سہرت رکھنے والے آفیسر کیپٹن شعیب کو انکوائر دے کر سب کو ’’پوتر‘‘ کردیا۔ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کے اسپیشل تحقیقات سیل نے گرینڈ حیات ٹاور مین 30 ارب روپے کا فراڈ ثابت کیا ایف آئی آر دی اور عدالت میں چالان بھی پیش کیا۔

(جاری ہے)

ایف آئی اے کی تحقیقات میں یہ بھی ثابت ہوا کہ گرینڈ حیات ٹاور میں تیس سے زائد اپارٹمنٹ بااثر لوگوں کو تحفے میں دیئے گئے۔گرینڈ حیات کی کہانی کچھ یوں ہے پہلے پہل 13 ایکڑ زمین کا یہ ٹکڑا فائیو یا سیون سٹار ہوٹل کے لئے مخصوص کیا گیا تھا تاکہ دوسرے ممالک کے سربراہان جب پاکستان کے دورے پر آئیں تو انہیں باعزت طریقے سے اور فول پروف سکیورٹی کے ساتھ رکھا جا سکے کیونکہ یہ پلاٹ کنونشن سینٹر کے ساتھ ہونے کے ساتھ ساتھ دفتر خارجہ اور شاہراہ دستور پر بھی تھا اس لئے اس پلاٹ کی اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے فائیو یا سیون سٹار ہوٹل بنانے کی پلاننگ کی گئی ۔

گرینڈ حیات کیس کا معاملہ حال کرنے کے لئے ایف آئی اے کے ایس آئی یو نے تحقیقات شروع کیں تھیں جبکہ تحقیقات کے بعد گرینڈ حیات کیس کا چالان عدالت میں پیش کیاجا چکا ہے جبکہ حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ 20 ستمبر 2017 ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے قومی اسمبلی کی کمیٹی برائے داخلہ کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ گرینڈ حیات میں کم از کم 30 بلین روپے کا فراڈ ہوا ہے جبکہ گرینڈ حیات ٹاور میں کافی سارے اپارٹمنٹ تحفے کے طور پر دیئے گئے ہیں جبکہ کمیٹی ممبران کے بار بار پوچھنے کے باوجود ڈی جی ایف آئی اے نے تحفے اور مفٹ میں اپارٹمنٹ لینے والوں کے نام نہیں بتائے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ وہی ڈی جی ایف آئی اے جو قومی اسمبلی کی کمیٹی برائے داخلہ کو یہ بتا رہے ہیں کہ کم از کم 30 ارب روپے کا فراڈ ہے اسی ڈی جی ایف آئی اے کا ایک ڈائریکٹر کیپٹن(ر) شعیبگرینڈ حیات کیس کو یہ کر بند کر دیتا ہے کہ اس میں کسی بھی قسم کا فراڈ نہیں ہے اور اس میں تمام لوگ بے گناہ ہے واضح رہے کہ ایف آئی اے کے گریند حیات کیس کا عدالت میں چالان جمع کروایا ہے جبکہ یہ اپنی نوعیت کا انوکھا کیس ہیں ۔

ایک طرف عدالت میں کیس چل رہا ہے ہیں جبکہ دوسری طرف کیپٹن(ر) شعیب اس کیس کو مختصر انکوائری کے بعد بند کردیا اور ملزمان کو کلین چٹ تھما رہے ہیں۔ ان کیس کے حوالے سے جب ہم نے کیپٹن(ر) شعیب سے بات کی تو وہ تسلی بخش جواب نہ دے سکے اور کہا کہ میں نے سارا کام قانون کے مطابق کیا جبکہ ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کے موبائل پر بارہا رابطہ کیا گیا انہوں نے فون اٹینڈ نہیں کیا ۔۔