غنی خان کے ساتھ انصاف کرنا چاہتے ہیں توان کی شاعری کی اصل روح کو سمجھنا ہوگا، شاہی سید

پیر 19 مارچ 2018 22:49

غنی خان کے ساتھ انصاف کرنا چاہتے ہیں توان کی شاعری کی اصل روح کو سمجھنا ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 مارچ2018ء) عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر شاہی سید نے کہا ہے کہ غنی خان گزشتہ صدی کے انتہائی نامور شاعروں میں سے تھے اگر ہم غنی خان کے ساتھ انصاف کرنا چاہتے ہیں توان کی شاعری کی اصل روح کو سمجھنا ہوگا یہ غنی خان کی شاعری کا کمال ہے کہ آج پشتون نوجوانوں میں قوم ولی کی کا جذبہ عروج پر ہے غنی خان کی شاعری وطن،مٹی اور قوم سے لازوال محبت سے بھری ہوئی ہے غنی خان پشتو شاعری کی مادڑن صوفی تھے یہ غنی خان کی بدقسمتی ہے کہ وہ ہماری جیسے بد قسمت قوم میں پیدا ہوئے، ان خیالات کا اظہار انہوں نے باچا خان مرکز میں عظیم پشتو شاعر غنی خان کی بائیسویں برسی کے موقع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا ، انہوں نے مذید کہا کہ انتہائی کامیاب پروگرام کے انعقاد پر صوبائی سیکریٹری ثقافت نور اللہ اچکزئی اور ان کی تمام ٹیم کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں،امید کرتا ہوں کہ پارٹی کا شعبہ ثقافت آئندہ بھی مذید فعال کردار ادا کرے گا، اب تک ان کی شاعری اور ان کے افکار کو اجاگر کرنے کے لیے اب تک خاطر خواہ کام نہیں ہوسکا ہے وہ خود بہت بڑے خان ہونے کے باوجود طبقاتی نظام کے خلاف تھے جس کا اظہار انہوں نے اپنی شاعری میں کیا ہے غنی خان پشتو شاعری کے جدیدیت کے بانی ہیں غنی خان کا مختلف انداز شاعری انہیں باقی شاعروں سے ممتاز کرتا ہے انہوں نے اپنی شاعری میں جدت میں انتہاؤں کو عبور کیا ہے غنی خان نے معاشرے میں خواتین کو ان کا مقام دلوانے اور جنسی امتیاز کے خاتمے کے لیے آواز اٹھائی قوم کے نوجوانوں کو غنی خان کی سوچ و فکر کو پھیلانے کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرنا ہوں گی، انہوں نے مذید کہا کہ لوگ غنی خان کو ایک دیوانہ فلسفی کہتے ہیں مگر غنی خان کی دیوانگی میں ایک عظیم ذہانت پوشیدہ تھی ان سے ملنے والوں عظیم لوگوں کا یہ کہنا ہے وہ ذہانت و معلومات کا انسائیکلو پیڈیا ہیں اور کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ علم کا سمندر ہیں حقیقت یہ ہے کہ پچھلی صدی میں چند چیدہ عظیم شخصیات میں سے ایک ہیں میری نظر میں غنی خان بنیادی طور پر ایک عظیم صوفی شاعر تھے،ان کی شاعری میں تصوف کا عظیم شاہکار ہیں ان کی تنقید میں ایک عظیم ذہانت پنہاں ہیں بلاشبہ غنی خان کی عالمی سطح شاعری تھی مگر ان کی یہ بد قسمتی تھی کہ پشتونوں میں پیدا ہوئی افسوس کہ غنی خان اگر وہ کسی دوسری قوم میں پیدا ہوتے تو پوری دنیا میں ان کی وفات یا پیدائش کو عالمی سطح پر منایا جاتا میں ان کی بائیسویں برسی کے موقع پر قوم کے جوانوں سے یہ اپیل کرتا ہوں کہ ان کی شاعری پر تحقیق کریں اور ان کے افکار کا پرچار کریں اور میرا یہ دعویٰ ہے کہ غنی خان کی شاعری کم ازم کم اگلے ایک ہزار سال کا احاطہ کرتی ہے،ان کی شاعری مستقبل کی شاعری تھی اگر میں یہ کہوں طور بے جاہ با ہوگا کہ پختون کسی طور اس قابل نا تھی کہ ان میں غنی خان جیسی شخصیت پیدا ہوتی، ہر گزرتا وقت ان کی عظمت میں اضافے کا سبب بنے گا،ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کی شاعری پر مزید پی ایچ ڈیز کی جائیں ، غنی خان نے پہلی مرتبہ پشتو شاعری میں فلسفے کو داخل کیا اور ایک ایسے جرات مند شاعر کی حیثیت سے ایسے موضوعات کو موضوع سخن بنایا جو آج تک کسی نے نہیں کیا،انہوں نے روایت سے ہٹ کر شاعری کے مزاج میں موضوع اور معنی کے لحاظ سے جدت پیدا کی، آج کے سیمینار اور مشاعرے کا سب سے بڑا مقصد لوگوں کو ان کا پیغام پہنچانا اور سمجھانا ہے کونکہ ان کے فلسفے کو سمجھنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے، سیاسی میدان میں غنی خان کو کئی بار جیل بھی جانا پڑا اور قید وبند کی سختیاں بھی بر داشت کی وہ ایک ایسی شخصیت کے مالک تھے جو اپنے آپ میں ایک ادارے یا ایک انجمن کی حیثیت رکھتے تھے۔

(جاری ہے)

‘غنی خان ایک ہی وقت میں صحافی، مورخ،سامجی علوموں کے ماہر،کیمیکل انجنئیر، شاعر، مجسمہ ساز اور سیاسی رہنماء تھے ، اس موقع پر پارٹی کے صوبائی جنرل سیکریٹری یونس خان بونیری ،کلچرل سیکریٹری نور اللہ اچکزئی اور سیکریٹری اطلاعات حمید اللہ خٹک، امیر نواب خان ، رانا گل آفریدی ، فہیم جان اور ضلعی ثقافتی سیکریٹریز زرین ننگیال، سرور شمال ،چاچا فضل خالق سواتی اور یاسین خٹک سمیت دیگر نے بھی خطاب کیا ،سمینار کے بعد پشتو مشاعرہ بھی منعقد کیا گیا جس میں نامور شعرائے کرام اور ادیبوں نے اپنے کلام اور مقالوں کے ذریعے غنی خان کے افکار پر روشنی ڈالی ۔