نیشنل واٹر پالیسی کے تحت دریائے سندھ پر کوئی نیا واٹر اسٹوریج / ڈیم قابل قبول نہیں، وزیراعلیٰ سندھ

پیر 19 مارچ 2018 22:49

نیشنل واٹر پالیسی کے تحت دریائے سندھ پر کوئی نیا واٹر اسٹوریج / ڈیم ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 مارچ2018ء) وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ نیشنل واٹر پالیسی (این ڈبلیو پی)کے تحت دریائے سندھ پر کوئی نیا واٹر اسٹوریج / ڈیم قابل قبول نہیں جب تک کہ اس حوالے سے تما م اسٹیک ہولڈرزبالخصوص زیریں ساحلی علاقوں میں آباد لوگوں کے مابین اتفاق رائے نہیں ہوجاتا۔انہوں نے یہ بات آج اسلام آباد میں ہونے والی سی سی آئی کے اجلاس جس میں نیشنل واٹر پالیسی پا غور کیاجائے گا کی تیاری کے حوالے سے منعقدہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہی۔

سیکریٹری آبپاشی جمال شاہ نے وزیر اعلی سندھ کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ مجوزہ این ڈبلیو پی میں سندھ حکومت کی مجوزہ ترمیم کو شامل کیاگیا ہے۔کچے کے محفوظ علاقے ہیں اور ڈیلٹا علاقوں کو خاطر خواہ باقاعدگی کے ساتھ پانی کی فراہمی کے حوالے سے تحفظات اور بارش کے پانی کی نکاسی کے مناسب انتظامات جو کہ براہ راست دریا میں نہیں پھینکا جاسکتا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ وزیر اعلی سندھ کی جانب سے دی گئی تجویز کے پانی کے 1991کے معاہدیپر اس کی اصل روح کے مطابق عمل کیاجائے اور اس کی پیرا دو کادفاع کیاجائے۔پانی کی تقسیم تناسب کے تحت تمام صوبوں میں کی جائے۔ وزیر اعلی سندھ نے کہا کہ وہ اس معاملے کو ایک بار پھر سی سی آئی کے اجلاس میں اٹھائیں گے۔سیکریٹری آبپاشی نے کہا کہ وزیر اعلی سندھ کی مجوزہ ترمیم کے صوبے سیلاب سے بچائو کے بندوں اور سیلابی نالو ں کی دیکھ بھال اورروزمرہ کی مرمت کے ذمہ دار ہیں، مگر بڑے تباہ کن صورت حال مثلا 2010 کیسیلاب جیسی صورتحال کی صورت میں وفاقی حکومت سپلیمنٹری فنڈز فراہم کرے گی جو کہ نظر ثانی شدہ ڈرافٹ پالیسی میں شامل نہیں کیے گئے ہیں ۔

اس پر وزیر اعلی سندھ نے کہا کہ مجوزہ ترمیم ضروری ہے اور وہ اس معاملے کو ایک بار پھر اٹھائیں گے۔ وزیر اعلی سندھ نے اپنی ترمیم کے حوالے سے بتایا کہ سسٹم میں اضافے کے لیے بڑے ڈیموں کی تعمیر تمام وفاقی یونٹس کے اتفاق رائے سے کی جائے جسے شامل نہیں کیاگیا ہے۔ اس پر وزیر اعلی سندھ نے کہا کہ انہوں نے وزیر اعظم پاکستان کو خط لکھا ہے جس میں ان سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ ایک پالیسی وضع کریں جس کے تحت نئے اسٹوریج /ڈیم بغیر اتفاق رائے بالخصوص زیریں ساحل سے وابستہ لوگوں کی اجازت کے بغیرتعمیر نہ کی جائیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ این ڈبلیو پی میں اس نیشنل واٹر پالیسی میں زیریں ساحل پر آباد لوگوں کے پانی پر قبولیت کے بین الاقوامی حق کو تسلیم کیاجانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پانی کے روا بہائو کو کسی بھی طریقے سے موڑنا یا مداخلت کرنے کی اس وقت تک اجازت نہ دی جائے جب تک کہ تمام وفاقی یونٹس بالخصوص زیریں ساحل پر آباد لوگوں کا اتفاق رائے نہ ہوجائے۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ سندھ اور بلوچستان کو پہلے ہی پانی کے سنگین مسائل کا سامنا ہے نئے اسٹوریج /ڈیموں کی تعمیر سے پانی کی بڑے پیمانے پر کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔انہوں نے کہا کہ ہم اس وقت تک نئی واٹر پالیسی قبول نہیں کریں گے جب تک کہ نئی پالیسی میں ہماری مجوزہ ترمیم شامل نہیں کرلی جاتی۔ ایک اور ترمیم جو کہ سندھ حکومت نے تجویز کی ہے کہ ایک نیشنل واٹر کائونسل(این ڈبلیو سی) قائم کی جائے جس کی ترتیب اس طرح سے ہو، وزیر اعظم چیئرمین، وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی، وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی، وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سیکوریٹی اینڈ ریسرچ، ڈپٹی کمیشن پلاننگ اینڈ کمیشن، صوبوں کے وزرا اعلی ، صوبائی آبپاشی کے وزرا ،پانی سے متعلق نجی شعبے سے اراکین بطور رکن ہوں اور ایڈوائزر /چیئرمین فیڈرل فلڈ کمیشن کونسل کے سیکریٹری ہوں گے۔

وزیراعظم آزاد جموں و کشمیر اور وزیر اعلی گلگت بلتستان کو ان کے صوبائی وزرا برائے آبپاشی اور زراعت کو بھی این ڈبلیو سی میں میں بطور مبصر کے اجلاس میں شرکت کی دعوت دی جائے گی۔ این ڈبلیو سی کے فنکشن حسب ذیل ہوں گے جس کے تحت نیشنل واٹر پالیسی پر عملدرآمد اور اس کا جائزہ اور معیشت میں نیشنل واٹر سیکٹر اسٹرٹیجی اور اس کی متواتر اپ ڈیٹ، قانون سازی ، پالیسیز اور پانی کے ذخائر کی ترقی اور ملک میں مینجمنٹ کے حوالے سے سفارشات، وفاقی اور اس کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومت کی سطح پر متعلقہ اداروں کے مابین نیشنل پلاننگ اور پانی کے وسائل کی ترقی اور مینجمنٹ سرگرمیوں کے حوالے سے باہمی رابطہ تاکہ این ڈبلیو پی کے مقاصد کو حاصل کیاجاسکے۔

ایک قابل افزائش ماحول پیدا کرنا تاکہ ملٹی اسٹیک ہولڈرز کی شرکت یقینی بنائی جاسکے اور پانی کے وسائل اور اس کی مینجمنٹ کے انضمام پر غور کرنا ۔ واٹر باڈیز بشمول دریائوں ، ندیوں، جھیلوں اور گرائونڈ واٹر میں پانی کی آلودگی کو کنٹرول کرنے کے لیے متعلقہ ذمہ دار اداروں کے ساتھ رابطہ۔مرکزی پانی کے وسائل کا ڈیٹا بیس سروس کا انتظام کرنااور کوئی بھی فنکشن جو کہ آئی سی سی کونسل اجلاس میں تفویض کر سکتی ہے۔وزیر اعلی سندھ نے کہا کہ یہ تجاویز این ڈبلیو پی میں شامل ہونی چاہئیں ۔ انہوں نے کہا کہ میں ان تمام مسائل کو اجلاس میں اٹھائوں گا تاکہ چھوٹے صوبوں بالخصوص ساحلی علاقوں میں آباد لوگوں کے حقوق کو تحفظ حاصل ہوسکے۔

متعلقہ عنوان :