ایس ڈی پی آئی کے زیرِ اہتمام’’ امریکہ کی جنوبی ایشیاء کے حوالے سے پالیسی اور پاکستان کے لئے مشکلات‘‘ کے موضوع پر سیمینار

امریکہ کا جنوبی ایشیاء میں مفاد ماضی سے اب تک پاکستان کے قومی مفاد کے منافی ہے،سفارتی و دفاعی ماہرین

پیر 19 مارچ 2018 22:01

اسلام آباد: (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 19 مارچ2018ء) امریکہ سے ہمارے تعلقات عمومی نوعیت سے کچھ زیادہ نہیں ہیں اس کے حوالے سے حقائق سے مختلف حکمت ِعملی اپنائی گئی۔ امریکہ کا جنوبی ایشیاء میں مفاد ماضی سے اب تک پاکستان کے قومی مفاد کے منافی ہے پاکستان میں خارجہ پالیسی کا نہ ہونا بھی اہم مسئلہ ہے۔ پاکستان کے بہت سے معاملات ہیں جن پر چابکدستی سے کردار ادا کرنا چاہئے وہاں دفاعی پوزیشن میں رہتا ہے۔

ان خیالات کا اظہار سفارتی و دفاعی ماہرین ڈاکٹر شیریں مزاری ، سابق سفیر عبد الباسط، جنرل (ر) حافظ مسرور احمد ، امتیاز گل اور جنرل طلعت مسعود نے ایس ڈی پی آئی کے زیرِ اہتمام’’ امریکہ کی جنوبی ایشیاء کے حوالے سے پالیسی اور پاکستان کے لئے مشکلات‘‘ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے کہا۔

(جاری ہے)

اس موقع پر رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ پاکستان کے امریکہ سے تعلقات انتہائی عمومی نوعیت کے ہیں اس حوالے سے بنائی جانے والی حکمت عملی غلط اندازوں کے پیش نظر ہے ۔

ہمارا یہ تصور ٹھیک نہیں کہ امریکہ ہمارا اتحادی ہے وہ کبھی تھا نہ ہو سکتا ہے۔ ماضی میں بہت سے ایسے مشکل مواقع آئے تھے جس سے تاریخی طور پر بات اُبھر کر سامنے آتی ہے کہ مختلف جگہوں پر امریکہ کا امادگی کا اظہار غلط ثابت ہوا جو کہ پاکستان کے مفاد کی بجائے امریکہ کے مفاد میں تھا ۔ ڈاکٹر شیریں مزاری نے مزید کہا کہ امریکہ کا جنوبی ایشیاء میں مفاد بھارت کی ترقی ، ایران کی تنہائی اور چائنا کو کمیونزم تک رکھنے میں ہے جو کہ پاکستان کے مفاد سے مطابقت نہیں رکھتا، انہوں نے کہا کہ ہمارا قومی مفاد امریکہ کے مفاد سے مطابقت نہیں رکھتا۔

امریکہ ہمارا فطرتی اتحادی نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کے اور ہمارے مسائل اور مفادات مختلف ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کی ضرورت ہے تاہم چین سے بھی مضبوط تر تعلقات وقت کی اشد ضرورت ہیں۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ خارجہ پالیسی کا جائزہ لے کر خطے کے ممالک سے مضبوط تعلقات کی اشد ضرورت ہے۔ قبل ازیں اظہار خیال کرتے ہوئے سابق سفارتکار اور اپری کے صدر عبدالباسط نے کہا کہ پاک امریکہ تعلقات معاشی مفادات باہمی اعتماد ، عدم استحکام اور دیگر ممالک کی خارجہ پالیسی کے تناظر میں نہ جانچنا فقدار کا باعث رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ واقعات پر عمل کی بجائے بالغ نظری سے تقابلی جائزہ لینا ہماری خارجہ پالیسی کا خاصہ ہونا چاہئے۔ ہمیں اپنے گھر کو پہلے سیدھا کرنا ہو گا پھر اُوپر سے نیچے تک ہم آہنگی کے بنا بہتر سفارتکاری نہیں ہو سکتی نہ ہی اچھے تعلقات کی امید رکھی جا سکتی ہے۔ ہماری کمزورخارجہ پالیسی کی وجہ سے امریکہ میں آج ہمارے لئے خلاء بڑھا ہے۔

اس موقع پر تجزیہ نگار امتیاز گل نے کہا کہ ہمیں امریکہ کے پاکستان سے تعلقات پر بات کرنے سے قبل تاریخ پر ایک نظر ضرور دوڑانی چاہئے کہ ماضی میں کبھی بھی خوشگوار تعلقات نہیں رہے۔ اس کے لئے ضروری ہے جامع حکمت عملی مرتب کی جائے۔دفاعی تجزیہ نگار میجرجنرل (ر) حافظ مسرور احمد نے کہا پاکستان کو اپنے فوجی مفاد کو سرفہرست رکھتے ہوئے افغانستان سے تعلقات خوشگوار بنانے چاہئیں ، افغانستان پاکستان میں اثر و رسوخ خوشگوار صورت نہیں ہے۔ ہمیں امن کے لئے سب سے مل کر بیٹھنا چاہئے تاکہ امریکہ کو بھی مناسب جواب مل سکے۔ اس موقع پر جنرل (ر) طلعت مسعوداور ایس ڈی پی آئی کے شکیل احمد رامے نے بھی اپنا نقطہء نظر پیش کیا#

متعلقہ عنوان :